اتوار، 17 نومبر، 2024

بلدیاتی حکومت سیاست کی نرسری ہے جہان عوام سے گہرہ تعلق اور ان کے بروقت مسائیل ان کی دہلیز پر حل کرنا اصل لیڈر شپ کی علامت ہے

                                                   بلدیاتی حکومت سیاست کی نرسری ہے جہان عوام سے گہرہ تعلق اور ان کے بروقت مسائیل ان کی دہلیز پر حل کرنا اصل لیڈر شپ کی علامت ہے


   Q  ملک کے ساتھ یہ کیسا مزا


 مسز ثریا اللہ دین


واقعی کبھی کبھی یہ گمان ہوتا ہے کہ  پرانے زمانے کے کم تعلیم یافتہ مگر اعلی

 تربیت یافتہ افراد ملک کی ترقی اور خوش حالی کے لئے شاید بہتر  تھے ۔ملک میں صنعتی انقلاب ،ڈیم  ، ہائی ویز فلائی اوور کا جال بچھ گیا ۱۶ روپئے کا ڈالر تھا ملک میں ترقی کے نمایاں ایثار نظر آتے تھے خوشحالی کی علامت بڑے بڑے گھر اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کے بنگلے قابل دید تھے ۔ شاید ہم اس وقت محنتی اور قدردان قوم بھی تھے ، دو ٹائیم کی  عزت کی روٹی جس گھر کو میسر تھی وہ  مطمئن تھا ،اچانک دوبئی چلو امریکہ پڑھو انگلینڈ سے مہارت حاصل کرو کی دوڑ کا آغاز ہوا اور لوگوں کی وفاداریاں تبدیل ہونے لگیں ، یعنی ملک میں کیا رکھا ہے کی فضاء چل پڑی  پھر اپنا ذہن، تجربہ ،مال  تجارت و صنعت اور خاندان  بیرون  ممالک منتقل ہونے لگا ۔  حکومت کی ناقص پالیسی اور غیر ملکی ماہریں پر انحصار  کرتے ہوئے ہم نے حکمران بھی درآمد کرنے شروع کر دیئے، کبھی معین قریشی اور کبھی شوکت عزیز اور  کبھی مارشل لاء اور وزیر خزانہ تو ہر صورت والڈ بنک کا ہی  ہمیشہ رہا ہے۔

بنیادی جمہوریت کو پھلنے پھولنے نہیں دیا گیا ہلانکہ بلدیاتی حکومت سیاست کی نرسری ہے جہان عوام سے گہرہ تعلق اور ان کے بروقت مسائیل ان کی دہلیز پر حل کرنا اصل لیڈر شپ کی علامت ہے۔

اس نرسری میں کونسلر کا پانچ سالوں کا سیاسی تجربہ انہیں قانون  معیشت لاء اینڈ آڈراورصوبے کے وسائیل و مسائیل  پر گرفت  حاصل ہوتی ہے۔

حقیقت میں تو انہی تجربہکار افراد  میں سے قابل لوگوں کو پارٹی ٹکٹ دے کر اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لینا چائیے لیکن اس کے بر عکس  اعلی ایوانوں میں مالدار  امیدوار کی تلاش رہی ہے چاہے اس کا عوام سے کوئی رابطہ ،کردار ،تعلیم اور تجربہ ہو یا نہ ہو ، اکثریت سینٹرز دوسرے صوبوں سے آکر بولی لگا کر ملک کے اپر ہاؤس میں موجود ہیں جنہیں ملک کے قوانین کا بھی علم نہیں  تو کونسیٹیوشن کی کتاب

کب پڑھتے ہونگے۔

سیاست ایک اعظیم ذمہ داری ہے  مگر یہاں بھی میرٹ کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔خواتین کی ہر سطع پر نمائندگی وشمولیت کے لئے ذاتی طور پر میں  نے بھی  بحیثیت ایکٹوسٹ بہت محنت کی ہے ،لیکن  افسوس کہ خصوصی نشستوں پر بھی اقبرا پروری اور من پسند خواتین  کو ڈیولپمنٹ فنڈز کے حصول کے لیئے منتخب کیا جاتا ہے  ، عوام کی ترقی  پس پشت  ڈال کر ذاتی خوشحالی مقصود ہوتی ہے

 اور میری نظر میں یہی بے ایمانی اور  ملک سے غداری  ہے۔

ہمیں امید تھی کہ ا عمران خان بقول اسکے نیا پاکستان بنائے گا ، لیکن انہوں نے آتے ہی اپنی کیبنٹ میں نا تجربہ کار  دوستوں کو درآمد کیا ، کئی لوگ آئے اور کئی تبدیل ہوئے مستقل مزاجی کی کمی کم فہمی کے باعث تمام پڑوسی ممالک سے دوری ہوئی ،سی پیک بند ہوا، ملک کے نوجوان شوشل میڈیا  کےجنونی بنے، بد اخلاقی عام ہوئی مگر ملک اخلاق میں کمزور اور ایک دوسرے سے بدگمان ہت گیا  ۔

ملک میں استقامت   خواب بن گئی ،کبھی عبوری حکومت اور کبھی کمزور حکومت یہ کیا کھلواڑ ہے ملک کھلونا نہیں بلکہ آئندہ نسلوں کی امانت ہے،

 حکمرانوں کو سلاخوں کے پیچھے بند کرنا یا ملک بدر کر دینا   ملکی مسائیل  کا حل نہیں  بار بار وہی لوگ یا ان کی اولادیں حکمران بنتے ہیں توقع تھی کی عمران کا کوئی رشتہ دار سیاست میں نہیں شامل ہوگا لیکن بشرہ بی بی اور علیمہ خان کا سیاسی میدان میں اترنا اور پارٹی لیڈر کی پیغم بر بن کر  اجلاس کرنا میری نظر میں عمران خان کی توہین ہے

اب بھی وقت ہے اسمبلی موجود ہے اور اپوزیشن بھی قانون سازی سخت کریں ، عوام کو اعتماد میں لیں قانون سب کے لئے برابر لاگو کریں ، اپنے ملکی ٹیلنٹ کو فروغ دیں انقلابی اقدامات کی ضرورت ہے

جس سے حب الوطنی کی خوشبو سے ملک معطر ہو جائے۔ اللہ پاکستان کی خفاظت فرمائے آمین



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot