سیاسی جدوجہد میں خواتین کا فعال و متحرک کردار;
;نیشنل پارٹی ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کے لئے قابل تقلید مثال
بلوچستان کے پسماندہ قبائلی معاشرے میں نیشنل پارٹی کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے خواتین کے فعال ومتحرک کردار کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ;ا گے انے کا موقع دیا
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صدر نیشنل پارٹی
نیشنل پارٹی کی مرکزی سیکرٹری خواتین سابق رکن بلوچستان اسمبلی یاسمین لہڑی کی جدوجہد کا تذکرہ ،نیشنل پارٹی قلات نیشنل پارٹی کا تسلسل ہے جس نے 1999ء میں پانچ خواتین کو کونسلر منتخب کیا
کوئی بھی شعبہ ہو خواتین کی شمولیت کے بغیرمتعین اہداف کا حصول مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے ، نیشنل پارٹی امسال خواتین ونگ کی سلور جوبلی بھی منارہی ہے جو اس جماعت کا انفرادی اعزاز ہے
مرکزی سیکرٹری خواتین یاسمین لہڑی پارٹی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئےسیاست بنیادی طور پر مظلوم محکوم طبقات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے جابر سماج میں سیاست کرنا کسی جہاد سے کم نہیں
نیشنل پارٹی خواتین ونگ کے پلٹ سے ہماری خواتین سیاسی ورکرز ظالمانہ قبائلی جاگیردار ی نظام کو چلینج کررہی ہیں 26سالگیرہ پر مبارک باد پیش کرتا ہوں ِڈاکٹر مالک بلوچ
نیشنل پارٹی خواتین ونگ کی سلور جوبلی کی مناسبت سے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں میں خواتین کی شمولیت ،پالیسیوں اہداف و ترجیحات کے حوالے سے مختلف مسائل کا احاطہ کرتی خصوصی رپورٹ
یاسمین لہڑیرپورٹ چوہدری امتیازاحمد
نیشل پارٹی جو کہ ایک جمہوری سیاسی پارٹی ہے جو ہر تین سال بعد مقرہ وقت پراپنی سیاسی قیادت کا انتخاب جمہوری انداز میں مرکزی قومی کونسل سیشن کے زریعے کرتی آرہی ہے ،مندوبین کو سیاسی پالیسی اور مستقبل کے لاۃ عمل بنانے اور ائندہ تین سال کے لیے پارٹی قیادت کو منتخب کرنے کا موقع دیتی ہے یاد رہے کہ اس مرتبہ نیشنل پارٹی اپنے خواتین ونگ کی سلور جوبلی بھی منا رہی ہے جس میں پارٹی اپنی خواتین سیاسی کارکنوں اور قیادت کے تعاون سے یاسمین لہڑی جنہیں پہلی مرتبہ یہ زمہ داری دی گئی تھی کو خیراج تحسین پیش کرے گئی ،آج کی رپورٹ میں نیشنل پارٹی کی خواتین سیاسی ورکرز کی عملی جدوجہد کو خیراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ خواتین ونگ کے قیام سے اج تک کی سیاسی جدوجہد کی تاریخ سے عوام کی اگاہی کے لیے پیش کی جارہی ہے ۔
ثمینہ ظفر
نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سابق وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے خواتین کی عملی جدوجہد کو خیراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں مستقبل حوالے سے پرامید ہوں کہ مستقبل قریب میں پاکستان بلخوص بلوچستان کی خواتین کو سیاسی عمل میں شامل کرتے ہوے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے میں اہم کردار ادا کرنے کے ساتھ دوسری سیاسی جماعتوں کی خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگا ۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی معاشروں کی تاریخ میں عورت کاکردار ہمشہ مثبت اور ترقی پسند رہا ہے ۔ ما قبل تاریخ میں زرعی پیدوار کا عمل ہو یا جنگلی جانورں کو پالنے کاعمل اس کی ابتدا عورت نے ہی کی ۔ ہمارے موجودہ قبائلی ،جاگیرداری معاشرے میں عورت انتہائی مظلوم طبقے سے تعلق رکھتی ہے ۔ سیاست بنیادی طور پر مظلوم، محکوم طبقات کی ضرورت ہے ۔ پاکستان کے جابر سماج میں سیاست کرنا کسی جہاد سے کم نہیں ہے ۔ ہماری خواتین کارکن جوکہ نیشنل پارٹی خواتین ونگ کے پلٹ فارم سے شعوری جمہوری سیاست کررہی ہیں میں انہیں داد دیتا ہوں کہ وہ اپنی انتھک محنت اور جزبے کے ساتھ 25برسوں سے قبائلی، جاگیرداری معاشرے کو چیلنج کرتے ہوے ظالمانہ نظام میں سیاسی معاشی سماجی نا انصافیوں کے خلاف مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد کررہی ہیں ۔ 25 ویں سالگیرہ ۔ سلور جوبلی پر میں خواتین ونگ کو خیراج تحسین پیش کرتا ہوں
شعبہ کوئی بھی ہو دل دردمندی سے مامور ہو تو مخلوق خدا سے محبت اور احترام کا سلیقہ آ ہی جاتا ہے،اونچ نیچ، مرد و زن کی تفریق، قوم قبیلے کی تفریق، امیر غریب کی تفریق، سردار اور عام آدمی کی تفریق، بے شمار معاشرتی نا ہمواریوں کے ماحول میں بطور انسان سب کو برابری کا مقام دلانے کی خواہش دل میں رکھنے والے بے شمار لوگ رب العالمین کی بنائی ہوئی دنیا میں پھیلی نفرتوں کے کانٹوں کو چنتے چنتے اپنے ہاتھوں کے لہولہان ہونے پر رنجیدہ ہونے کی بجائے معاشرے میں آنے والی مثبت تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے زیر لب مسکرا رہے ہوتے ہیں ۔ قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے کے باسی ہوتے ہوئے بھی معاشی بدحالی میں زندگی گزارتے لوگوں کو دیکھ کر ان کا درد محسوس کرتے ہوئے ان کے طرز زندگی کو بدلنے کا خواب آنکھوں میں سجائے ایک عام گھرانے کی لڑکی تعلیم کے حصول کے لئے مشکلات کو خندہ پیشانی سے سہتے ہوئے تمام مشکلات کا مقابلہ اس آس پر کرتی ہے کہ میں بدحالی کے شکار لوگوں کی زندگی میں بہتری لانے کی جدوجہد میں کامیابی حاصل کروں گی ۔ صوبائی دارالحکومت سے 40 کلو میٹر دورواقع شہر مستونگ کے گاوں میں آنکھ کھولنے
الی اس عام سی لڑکی نے سماج کی دیواروں کو گراتے ہوئے تعلیم کے حصول کا حق حاصل کیا ۔ ابتدائی تعلیم مستونگ میں حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم بلوچستان یونیورسٹی سے آئی آر (عالمی
تعلقات) میں ماسٹر کیا ۔ سماجی خدمت کاجذبہ لئے میدان عمل میں آنے والی اس باہمت سادہ مگر باوقار خاتون کا نام یاسمین لہڑی ہے جو نیشنل پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری ہیں ۔ سماجی خدمت کا جذبہ انہیں سیاست کے میدان میں لے آیا ۔ ایسے ملک میں سیاست کے شعبہ میں آنا جس ملک کا قیام جمہوری طریقے سے عمل میں آیا ہو نام اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ہو مگر اقتدار اعلیٰ پر زیادہ مدت تک قبضہ غیر جمہوری قوتوں کا رہا ہو جہاں اقتدار پر قبضے کے بعد ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی اور دوسرے پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا ہو جہاں سیاست کو عبادت کی بجائے شجر ممنوعہ قرار دینے کی سازشیں زوروں پر ہوں ایسے ملک میں سماجی خد مت کے لئے شعبہ سیاست کا انتخاب کرنا واقعی ہی مشکل فیصلہ ہے ۔ تاریخ میں ہر معاشرے کی تعمیر وترقی میں خواتین کا کردار ہمشہ اہم رہا ہے ۔
قدیم گم شدہ تہذیبوں کے آثار سے جو علمی اثاثے جدید سائنس نے دریافت کیے ہیں ان میں حیران کن طور
پر ماقبل تاریخ میں خواتین مردوں کے برابر علم و تحقیق پر دسترس رکھتی تھی ۔ اس طرح جدید تاریخ میں سوویت یونین جیسے ترقی پسند معاشرے میں خلا میں دنیا کی پہلی عورت نے خلا بازی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا وہ سائنس کے میدان میں بھی مردوں کے برابر محنت کر کے معاشرے کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردارادا کر سکتیں ہیں ۔ جبکہ بلوچستان میں قبائلی ، جاگیرداری، سرداری نظام میں مرد کی بالا دستی ملا اور سرکار کی معاونت سے عورتوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے کی ہرممکن کوششیں آج بھی جاری وساری ہیں ِون یونٹ کے خاتمے کے بعد 1972 میں پہلے انتخابات میں پہلی خاتون فضیلہ عالیانی بھی جام اف لسبیلہ کے خاندان سے تھی جو انتخاب لڑ کر رکن صوبائی اسمبلی اور وزیر بنی تھی ۔
طاہرہ خورشید
بلوچستان میں قومی اسمبلی کی پہلی خاتون ممبر قومی اسمبلی نواب خیر بخش مری کی ساس جونیفر موسی بنی، دوسری خاتون زبیدہ جلال بھی غیرجمہوری قوتوں کی معاونت سے الیکشن چیت کو قومی اسمبلی کی ممبر بنی ۔ اور بعدازاں وفاقی وزیر بنی ۔ تیسری خاتون نسرین کھتران اپنے شوہر سردار عبدالرحمان کھتران کے نا اہل ہونے پر رکن اسمبلی منتخب ہ وئی اور صوبائی وزیر رہی ۔ اسی طرح فائیق جمالی کی نا اہلی کے باعث وہ اپنی اہلیہ راحت جمالی کو اسمبلی میں الیکشن لڑوا کر لے ;200;ئے ۔ یوں بلوچستان کے صوبہ بنے سے آج تک بطور سیاسی کارکن اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر یاسمین لہڑی کے علاوہ ایک بھی سیاسی ورکر خاتون کوکسی بھی پارٹی نے اسمبلی پلٹ فارم پر بلوچستان کی عورتوں کی نمائیندگی کرنے کا موقع نہیں دیا ۔
ڈاکٹر شمع اسحاق
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ڈیکٹیٹر جنرل مشرف نے پہلے بلدیاتی انتخابات میں 33فیصد کوءٹہ مختص کیا اور بعد میں جرنل الیکشن میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے لیے 17 فیصد کوٹہ خواتین کے مختص کیا ،بلدیاتی الیکشن میں تو بہت سی عام خواتین کامیاب ہوکر نظام کا حصہ بن گی مگر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں سیاسی پارٹیوں نے فرسودہ سوچ کی پیروی کرتے ہوے قبائلی، جاگیرداروں ، سرداروں نے اپنے گھر کی عورتوں کو جو سیاسی عمل کا ایک دن بھی حصہ نہیں رہیں کو صوبائی اور قومی اسمبلی سینٹ کی رکنیت دلوا دی ۔ دوسری جانب رہی سہی کثراغیر جمہوری قوتوں نے اپنی منظور نظر خواتین کو اسمبلیوں تک پہنچانے کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھا ہواہے کچھ پارٹیوں کے سربراہان نے خاندان سے بچ جانے والی نشستوں پر پارٹی شہدا کے خاندان کی سیاست سے نابلد عورتوں کو رکن اسمبلی نامزد کردیا ۔ ان غیرسیاسی خواتین ممبران کی اسمبلی مدت ختم ہونے تک کارکردگی نہ ہونے کے برابر رہی ۔
یاسمین نگار
یشنل پارٹی جو کہ قلات نیشنل پارٹی کا تسلسل ہے ۔ 1999ء میں پہلی دفعہ سیاسی میدان میں خواتین کی اہمیت اور ضروت کو سمجھتے ہوئے کوءٹہ سریاب میں پڑھی لکھی خواتین کا ایک گروپ بنایا جس نے اکتوبر کو پارٹی کے پلیٹ فارم سے یا سمین لہڑی کی سربراہی میں کام کا آغاز کیا ۔ یادر ہے کہ یاسمین لہڑی کا تعلق مستونگ سے ہے ۔ زمانہ طالب علمی سے بی ایس او کے رہنما چیر مین اسلم بلوچ کی رہنمائی میں نہ صرف سیاسی تربیت حاصل کی بلکہ عملی طور پر بی ایس او کے منعقدہ جلسوں سے خطاب بھی کرتی رہی ۔ اس وقت کے بلوچستان نیشنل موومنٹ (بی این ایم کے صدر ڈاکٹر عبد الحی بلوچ نے اپنے صوابدیدی مخصوص کوٹے سے ان پانچ خواتین کو نہ صرف کو نسلر منتخب کیا ۔ بلکہ خواتین کی سیاسی عمل میں ا گے آنے کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ۔ پارٹی میں خواتین ونگ کی مضبوطی اور استعداد کاری کے عمل میں واجہ شہید مولا بخش دشتی،شہید چیئر مین غلام محمد، چیئر مین، شہید ڈاکٹر یاسین، بلوچ شہید نسیم جنگیان منصور بلوچ چیرمین ، واجہ ابوالحسن بلوچ اور مختیار چھلگری کا اہم کردار رہا ہے ۔ قومی کونسل سیشن کے دوران یاسمین
صابرہ اسلام ایڈوکیٹ
لہڑی کی سربراہی میں پانچ خواتین (صائمہ بی بی،منفوسہ بلوچ ہ،فوزیہ بی بی اور ، شائستہ شاہوانی کی پارٹی میں شمولیت اور عملی سیاست میں اہمیت اور افادیت کو سمجھتے ہوئے ۔ پارٹی کے دوستوں نے ان نہ بحثیت مرکزی کونسلرز کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ انہیں پارٹی میں خواتین ونگ کو مضبوط کرنے میں ہر طرح کی مد دو تعاون کی یقین دہانی کراتے ہوئے پارٹی میں خواتین کے آئینی عہدے جن میں مرکزی صوبائی و ضلعی خواتین سیکٹریز کو پارٹی کے منشور میں آئینی تحفظ دیا گیا ۔ یاد ر ہے کہ یہ بی این ایم کا تاریخی سیشن تھا ۔ جس میں حقیقی جمہوریت کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے، پارٹی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صدارتی عہدے پر ڈاکٹر عبد الحی بلوچ اور غلام محمد بلوچ کے درمیان مقابلہ ہوا ۔ جس میں ڈاکٹر عبدالحئی
شاری عبدالحسن
صدر منتخب ہوئے ۔ حقیقی جمہوری سوچ والی پارٹی ہونے کے ناطے مرکزی کمیٹی کے ممبران کا انتخاب ہمیشہ ووٹ کے ذریعے عمل میں لایا جاتارہا ہے اس قومی سیشن میں کو نسلر ان نے ےاسمین لہڑی کو مرکزی کمیٹی کا ممبرمنتخب کیا ۔ واضع اکثریت سے کامیابی نے ان کی پارٹی کے ساتھ وابستگی کو مزید مضبوط کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ(1999ء سے 2024)ء پچھلے 25 برسوں کے دوران نیشنل پارٹی میں خواتین سیاست پروان چڑھنے کے ساتھ خواتین سیاسی ونگ نے اپنی عملی جدوجہد سے بلوچستان کے بلوچ بلیٹ کے اضلاع گوادر کی، بخشی کالونی، شمبے اسماعیل تربت میں سنگانی سر،بالیچہ، شاہی تمپ، شاہرگ و سامی سے، پنجگور بارکھان میں عیشانی، بغاؤ، رکنی، جعفر آباد،حب چوکی سے بھاگ ناڑی ۔ چھلگری
کلثوم نیاز بلوچ
سے مچھ بولان، کوءٹہ مستونگ، نوشکی، دالبندین، واشک اور سبی، لسبیلہ،خاران ،واشک ، تک متحرک سماجی خواتین کو نیشنل پارٹی کے خواتین ونگ کا حصہ بنایا گیا ہے ۔ 2002ء کے جنرل الیکشن میں اور پارٹی کی پہلی خاتون امید وار برائے ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر صفیہ تاج حسنی نے بارکھان سے با قاعدہ جنرل الیکشن میں بطور امیدوار حصہ لیا ۔ مرکزی صدر ڈاکٹر عبد الحئی بلوچ کی ہدایت پر مرکزی خواتین سیکرٹری یاسمین لہڑی نے عبد الکریم وڈیرہ مرحوم میر گل اور ڈاکٹر غلام محمد کی معاونت سے پورے ضلع میں مختلف گاؤں کا دورہ کر کے الیکشن مہم میں بھر پور حصہ لے کر سیاسی پختگی کا ثبوت دیا، بلوچستان کے مختلف اضلاع میں موبلائزیشن کر کے پارٹی پروگرام کے ذریعے یونٹس قائم کیے ہیں ۔ اس سیاسی
شاہنہ رمضان
عملی جدو جہد میں جن خواتین کا اہم کردار رہا ہے ان میں کراچی سے سینر ساتھی کامریڈ شاہینہ رمضان،یاسمین بی بی، جعفر آباد کی ضلعی سیکریٹری نیک پروین، پروین میر، نصیر آباد کی سیکر یٹری زر خاتون، زر بی بی، کچھی سے ضلعی کونسلر فضا بی بی، شرف خاتون ، گل بی بی، سمیرا انقاء ، روبیہ بلوچ، صوبیہ بلوچ ،ریشمابی بی، زرینہ بی بی، نجمہ بی بی ، مراد بی بی، بیب ناز ،حمیدہ فدا،مستو نگ سے زر ملک سمینہ ظفر، دردانہ بی بی، ناز بی بی پنجگور سے نسیمہ تاج ،مسز
حمیدہ فدا
لطاف بلوچ، سمیرا بی بی،کیچ بالیچہ سے لالس بی بی، شار ی ابوالحسن، سنگمین دشتی، آمنہ مالک بلوچ ، ڈاکٹر راحت بلوچ، زینب یاسین بلوچ، در دانہ بلوچ، میر جان بلوچ ،لسبیلہ حب چوکی سے در بی بی بز نجو، ایڈوکیٹ ساجدہ ابڑو، خاران سے حبیبہ بی بی، پروین گل، کوءٹہ سے پروین لانگو، فرزانہ رئیسانی، شازیہ لانگو، صابرہ اسلام ،مریم غفار،مریم بی بی،فرزانہ بی بی، فریدہ بی بی،گنج خاتون،گل نگار،کلثوم بی بی ، کلثوم نیاز لانگو، ڈاکٹر شمع اسحاق، رضیہ ناز ،گل بی بی، شاءتہ نواب ،شایہن بی بی،سلمی قرایشی،مدیہ خان،سعدیہ بی بی،ساہرہ بتول،ریشدہ بی بی،سکینہ بی بی، مونہ بی بی،نورینہ بی بی،مریم بی بی ،حمیدہ بی بی ، ثمینہ حیات، نوشکی سے شازیہ بی بی ،سبی سے کلثوم بی بی ،گوادر سے ممبر طاہرہ خورشید، بیگم بی بی، حبیبہ بی بی صحبت پور سے شمشاد بی بی، واشک سے سانیہ
شازیہ احمد لانگو
عبدالرسول شامل ہیں ۔ 2022 کے بلدیاتی انتخابات میں نیشنل پارٹی نے جاگیر داری اور سرداری نظام کی زنجیروں کو توڑنے کے لیے کاری زب لگائی ،صدیوں سے بلامقابلہ اقتدار کے مزے لوٹنے والے جاگیر داروں اور سرداروں کے مقابلے میں غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور مرد کارکنوں کو نیشنل پارٹی کا امیدوار بناکر جاگیرداروں اور سرداروں کو چیلنج کیا ۔ ان خواتین امیدواروں میں سبی سے نرگس بلوچ ، دشت سے شہباز ،قلات نگور سے سمیرا بی بی ،سامی سے سگین گجکی سمیت بہت سی خواتین بلا مقابلہ منتخب ہوئیں ، صحبت پور سے خیر النسا ء نصیر آباد سے پروین میر ،مستونگ سے نگینہ بی بی، مچھ بولان سے نورالنسا نے الیکشن میں حصہ لیا، اس سیاسی عمل سے عام عورت میں ایک شعور اور آگاہی کے ساتھ قبائلی سرداروں کا خوف بھی کم ہوا ۔ مرکزی خواتین سیکریٹری نے خواتین بلدیاتی امیدواروں کی حوصلہ افزائی کے لیے بلوچستان کے درج زیل اضلاع کا دورہ کیا جن میں ، مستونگ، صحبت پور جعفر آباد انصیر آبا د، کچھی ،سبی، واشک پنجگور،کیچ اور گواد شامل ہیں کے دورے کیے مقصد خواتین امید واروں کی حوصلہ افزائی اور مرد امیدواروں کی کامیابی کے لیے خواتین ضلعی سیکرٹریز کوسرگرم رکھنا تھا ۔ خواتین امیدواروں نے سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کے ساتھ یہ شعور بھی دیا کہ سیاست صرف مردوں کا کام نہیں ہے بلکہ ہا ہمت عورت بھی حو صلے کے ساتھ سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کر کامیابی حاصل کر سکتی ہے ۔ اس طرح ان خواتین نے یقینی طور پر کامیابی حاصل کر کے پچھلے 77سالوں کے جمود کو تو ڑ نے کے ساتھ نسل در نسل اقتدار میں رہنے والے قبائلی سرداروں کا گمنڈ توڑ دیاہے ۔
سلمی قریشی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں