منگل، 22 اکتوبر، 2024

اقوام عالم کے باہمی اشتراک اور تعاون سے ہی ممالک ترقی کرتے ہیں!


 میں  اکثر  اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو شکائت کرتے  یا خوف کا اظہار کرتے  سنا ہے کہ پاکستان بیرونی قرضوں پر چل رہا ہے اور عوام کا بچہ نچہ  اس کے قرض کے بوجھ تلے  دبا ہوا ہے اور ہم  جدید دور میں بھی پشماندہ ہیں ۔

واقعیی یہ دکھ بھری داستان ہے  اور ۱۹۴۷ سے ہماری تیسری نسل اب تک  اس طعنہ کو برداشت گر رہی ہے۔

اب ہم اگر سنجیدگی سے   اپنا جائزہ لیں تو آپکو علم ہوگا کہ عرصہ دراز سے  پاکستان  میں ترقی یافتہ ممالک سے یو ایس ایڈ ، یونیسف، ڈبلیو ایف پی ، یونسکو۔ ایف اے او  فرنچ ایڈ ، جرمن ایڈ وغیرہ  جیسے آین جی اوز  پاکستان میں رضاکارانہ امداد  سے محکموں اور نوجوانوں کو با صلاحیت و ہنر مند بنانے میں مشغول  رہے ہیں ان کے ماہریں ملک میں  تعلیم صحت زراعت صنعت و تجارت  لائو اسٹاک  اور ٹکنیکل ٹرینگ ہمیں منتقل کرتے آئے ہیں۔

اور پاکستان کو خود کفیل بنانے کے لئےکئی  محکموں صحت ،درسگاہوں ، پبلک ایڈمنسٹریشن ، پھل فروٹ چاول گندم کپاس کی بہترین فصل اگانےاور عسکری تربیت کے لئے بھی وظائف دے کر انہیں

بیرونی ممالک  تربیت کے مواقع فراہم کئے جاتے رہے  تاکہ تربیت کے بعد ماہرین اپنے ملک آ کر اسے کو خود کفیل بنا سکیں ۔

یہ سہولتیں اُن

تمام غیر ترقی یافتہ مما لک کو دستیاب ہیں جو اقوامتحدہ کی جنرل اسمبلی کا رکن ہوتے ہیں  جنگ ہو یا امن دونو صورتوں میں ان کی معاونت کی جاتی ہے۔

بڑی طاقتیں امریکہ چین روس جاپان  یو کے اور یوروپئن ممالک اور اب عرب ممالک میں سعودی عرب یو اے ای آور گلف ممالک بھی ان کی صف میں شامل ہیں  جو غریب ممالک کو قرض دیتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ وقت مقررہ پر واپسی ہوگی ورنہ سود کی سورت میں ملک قرض دار کہلائے گا۔ اب ہمارے تعلیم یافتہ ، تربیت یافتہ ،مزدور ماہریں صنعتکار تاجروں کی اکثریت موقع ملتے ہی ملک چھوڑ جاتے ہیں جب دودھ سے کریم نکل جائے تو چھاچ سے گزارہ کرنا ہوتا ہے ،

ملک کے جاگیردار صنعتکار اور تاجر اگر ٹکس ادا نہ کریں تو ملک کی ترقی اور قرضوں کی واپسی کیسے ہو، ملک میں رشوت بےایمانی تخریبکاری اور بیروزگاری ہی جنم لے گی۔ اگر دینی تعلیم دیکھں تو قرآن عربی میں لکھا ہے اور ہم مخیتلف زبانیں بولتے ہیں دین کو سمجھنے کے لئے اسکولوں میں عربی اور اردو اگر لازمی ہو تو ہمیں مزہب سمجھنے کی مدد ملے گی اور انگریزی جو بین القوامی زبان ہے اسے ضرور پڑھایں ناکہ مزید ترقی ممکن ہو لیکن ملک کی پالیسی بنانے والوں کو خود اس سے خوف اور احساس کمتری ہے۔ ملک کا ہر شہری سیاستدان اور تجزیعہ نگار بن کر کبھی سوشل میڈیا یا ٹی ویپر موجود  ہے  ،بھئی جسکا کام اس کو ساجے  یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہوگا۔ 

ہمارے ہموطن فارن انوسٹرز سے اکثر خوف ذدہ رہتے اور حکومت پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ، سمجھنے کی کوشش کی جائے تو امریکہ جیسا ملک جو ریڈ انڈین کا  ویران ملک تھا کلمبس نے جب دریافت کیا تو کئی قومییں یہاں آکر آباد ہوئیں اسپینش ،مکسکن  ،ائرش ۔آنگریز  چینی اور دیگر قوموں نے اسے آباد کیا باوجود امیر ترین ملک ہونے کے  یہاں فارن انوسمنٹ  و تجارت کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ چین اور روس سے دوستی نہیں لیکن امریکہ میں بہت سی چیزیں میڈ ان چائنہہ دستیاب ہیں اور یہی حال چائنہ کا ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں

 صنعت تجارت صحت زراعت  زندگی کے ہر شعبے میں پوری دنیا کے نوجوان آکر کام کرتے ہیں اور کامیاب کہلاتے ہیں اس میں ہم بی شامل ہیں۔

عرب ممالک کی مثال  لیں 

ایسے ممالک میں تیل اور گیس کی دستیابی سے گزشتہ ۵۷ سالوں میں  ریگستانوں کو ترقی یافتہ ملک میں تبدیل کردیا گیا ہے۔جہاں قانون و انصاف کی پاسداری اور دنیا بھر کے قابل افراد کے لئے ترقی کے مواقعے دستیاب ہیں لیکن سختی اور ایمانداری سے ہر فردیہاں  کام کرتا ہے ٹیکس بر وقت ادا کرتا ہے اور سیاست ہر فرد کو کرنے کی اجازت نہی  ، دنیا بھر سے انوسٹرز وہاں موجود ہیں۔

ہمارے وطن میں ہر پڑوسی ملکسے اسمگلنگ تو کرنی ہے لیکن سی پیک کے منصوبوں سے خوفذدہ ہیں آئے دن گوادر میں قیمتی جانے ختم ہو جاتی ہیں ملک میں بد امنی ہوگی تو ہم سب ایک دوسرے سے خوف کھائیں گے اللہ تعالئ نے ہمیں ساحل سمندر دیا ہے جو کئی ممالک کے درمیان تجارت کاخزانہ ہے  مچھلی کی مارکیٹ  گوادر ائر پورٹ پوری دنیا سے ہمارا تعلق پیدا کرے گا  ،ہمارے  نوجوانوں کے لئے روزگار فراہم ہونگے تو بلوچستان بھر کی ترقی ہوگی  اور سچ پونچھیں تو کب تک ہم اسمگلنگ  یا غیر قانونی تجارت سے دل بہلائیں گے ۔

اپنی سوچ کو وصعت دیں مجھے پورا یقین ہے اگر کولاچی سے کراچی بن سکتا ہے اور ریگستان سے ترقی یافتہ دوبئی، 

تو یقین جانیں ہمارے بلوچستان کے ساحل سونا اگلیں گے اوربلوچستان کا ہرنوجوان اپنی سر زمیں اور ساحلوں پر فخر کریں گے۔

ثریا اللہ دین

تمغہ امتیاز

21/10/24 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot