پیر، 23 ستمبر، 2024

پشتون تہذیب و ثقافت سماجی انصاف،امن و بقاء مکالمے کا متلاشی



 23ستمبر 2024ء

 کے لئے



 خصوصی مضمون!!!


,,پشتون تہذیب و ثقافت

سماجی انصاف،امن و بقاء

اور ٹیکنالوجی ،توانائی و مکالمے کا متلاشی !!!؟؟؟،،،

خصوصی تجزیہ!!!

برائے اہل فکر و دانش،،،

عبدالمتین اخونزادہ ـ

مجلس فکر و دانش

 انسانوں کے ہزاروں سال کے سفر میں تہذیب و تمدن اور کلچر و دانش مندی ہی انسانی زندگی کا حاصل و اثاثے شمار کئے جاتے ہیں اگرچہ انسان روز مرہ زندگی میں ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے بھاگ دوڑ میں مصروف عمل رہتا ہے مگر معنویت اور مقصدیت کا ادراک و احساس کئے بغیر وسائل و توانائی بے معنی شمار کی جاتی ہیں ،انسان اپنی فطرت و طبیعت میں امن و شرافت کا بنیادی خاصہ رکھتا ہے، فطری ضروریات میں معاشی و معاشرتی ضروریات اور امن و سکون اولین اہمیت رکھتے ہیں،

 ثقافت و روایات اور اقدار و خوشحالی ثانوی نہیں بلکہ بغیر مقابلے و کشمکش کے اہم تر عناصر  زندگی  شمار ہوتے ہیں،،

بلاشبہ اس سے زیادہ بنیادی درجہ عقیدہ، ایمان اور زندگی کے بنیادی تصورات ہیں، جس کی بنیاد پر ثقافت و تہذیب کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں لمحہ موجود میں انسانی نفسیات اور سائنٹفک اسٹڈیز کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و دانش مندی کی فروغ کے باعث معاشرتی ترقی و پیشرفت کے باعث نئے سوالات و چیلنجز پیدا ہوئے ہیں جنھیں مناسب انداز میں ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے اگرچہ یہ سیڑھیاں درجہ بہ  درجہ  انسانی معاشروں میں اپنے مقام و مرتبہ کے لحاظ سے متعین ہیں انسانی سوسائٹی میں جب جب یہ تدریج اور توازن بگڑ جاتا ہے تو عدم تحفظ،بدامنی، معاشی ناانصافی اور بقاء کا سوال درپیش رہا ہے،،

بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرتی اصولوں اور ریاست کے خدوخال و بنیادی پالیسیوں میں یہ فطری و ازلی انسانی ترتیب و توازن  بگڑ چکا ہے ،،، پاکستان کو ہندوستان سے آزاد ہوئے پھچتر سال سے زائد کا عرصہ ہوگیا ہے لمحہ موجود میں تیز رفتار ترقی اور ٹیکنالوجی کے باعث ایک عشرہ دس بیس برس بہت اہمیت رکھتے ہیں لیکن ہمیں سات عشرے ہوگئے ابھی تک بنیادی سمت کا تعین نہ ہونے کے باعث معاشرتی فلاح و بہبود اور ثقافتی و علمی ترقی سے ہمارا معاشرہ کوسوں دور ہے ، اگر ہم آئین پاکستان ، قرار داد مقاصد اور قوموں کے حقوق و مادری زبانوں  ، ثقافت و تہذیب اور بنیادی انسانی حقوق  جیسے اہم اور مقدم امور پر بھی عدم یکسوئی کا تصور رکھتے ہیں  اور مناسب و مثالی انداز میں عمل درآمد کا فریم ورک اختیار نہ کرتے ہوئے بے منزل اور بے سمت ہو جاتے  ہیں ،،،

 اس پس منظر میں پاکستانی معاشرے کے اندر موجود اتھل پتھل، سماجی ناانصافی  اور لاکھوں نہیں  کروڑوں انسانوں کی  عدم یکسوئی نے ھمیں تباہی و بربادی کے آخری دہانے پر پہنچا دیا ہے، بھوک اور غربت کے اندھیرے ہیں، جہالت اور پسماندگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں ، ٹیکنالوجی سے کوسوں دور اور تھوڑا بہت استعمال ہے تو وہ منفی تناظر میں اپنے بچوں ،بچیوں اور معصوم و نازک خواتین کے ساتھ جنسی درندگی اور سفاکیت کے ساتھ ساتھ صدیوں کے محنت شاقہ سے بنے ہوئے انسانی اقدار و دانش مندی کے درپے ہیں ثقافتیں اور اقدار مٹانے پر  تلے ہوئے ہیں ، حالانکہ انسانی زندگی روز اول سے تعلیم و ہنر، خوشی و راحت، معاشی آسودگی، ذہنی خود نمائی ، نشوونما  اور عبدیت کے اعلیٰ تصور کا حامل رہی ہیں،کلچر و ثقافت  اور  رسم رواج، اسی تنوع و وسعت اور معاشرتی ضروریات پوری کرنے کے لئے ترتیب دیئے جاتے ہیں ،،، بلاشبہ ثقافت و تہذیب ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں اور ہر قوم کو اپنی روایات اور اصولوں پر  فخر ہوتا ہے ،،

 پشتون، افغان تاریخی طور پر ذہین ،تعلیم یافتہ ،مہمان نواز اور ہر دور میں مثبت و باوقار  کردار ادا کرتے آئے ہیں، پشتونوں کے شاندار ماضی اور بھرپور تاریخی کردار پر  وسیع  لٹریچر و دلائل موجود  ہیں اور ہر زمانے اور ہر قوم نے ان کی شجاعت و بہادری کی گواہی دی ہے ، وطن و قوم سے لازوال  محبت کر تے ہیں، پشتو ن بحیثیت  قوم ، اجتماعی طور پر غلامی و جبر قبول  کرنے سے ناآشنا رہے ہیں مگر تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ حالات کی تبدیلی کا بحیثیت قوم پشتون بروقت ادراک نہ کر سکیں ہیں،،،

جب پہیہ  ایجاد ہوا اور دنیا زرعی دور  سے صنعتی دور کی طرف منتقل ہوئی،،،

جب بجلی ایجاد ہوئی  اور ذرائع ابلاغ نے ترقی کی،،،

 جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہوا اور اس کا استعمال زندگی کا بنیادی حصہ بنا  تب ہر دور میں اپنے حالات اور واقعات کے تناظر میں بنیادی معاشرتی و معاشی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی،ان تینوں ادوار کا  پشتون بحثیت قوم و ملت بروقت ادراک نہیں کر سکی اور نہ ہی پیش بندی و منصوبہ بندی میں اپنے حصے کا کام اقوام عالم کی تیز رفتار دوڑ میں  ٹھیک طریقے سے پیش کر سکی،،،،

  اس کشمکش اور کمزوری میں بلاشبہ ہمارا علم و عمل سے ناآشنا  قبائلی نظام، دیہی پسماندگی ، مذہب و مذہبی شخصیات اور اداروں کا جامد و کمزور کردار  اور نئے پن و تبدیلی کو قبول نہ کرنے کی ذہنیت و رویہ کا بڑا بنیادی حصہ رہا  ہے،،

فطری قوانین ، الہامی

 و حی اور مذہب کا کردار، معاشروں میں ہمیشہ مثبت و دیر پا رہا ہے اور اجتماعی ترقی کا زینہ بلند کرنے کا ذریعہ ہیں مگر بدقسمتی سے پشتون قوم میں  پچھلی دس صدیوں سے مذہبی جمود رہا جو بحیثیت مجموعی مسلمان امت کا مسئلہ رہا ہے ،،،

 پشتون دانشوروں و ادیبوں کو لازماً  گہرائی سے اس امر کا جائزہ لینا ہوگا کہ

 آخر پشتونوں و افغانوں کے درمیان اسلام بطور مذہب جو زندہ  کردار ادا کرنے کا حامل ضابطہ حیات و دین فطرت ہے کیونکر جمود و تنازعے کا شکار  رہا جس کے نتیجے میں معاشرتی تبدیلی اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے ہزاروں میل دور بے خدا تہذیب و معاشرت میں افغانوں کو فعال چاشنی کیوں کر محسوس ہوئی جو ایک طویل ذہنی و فکری کشمکش کے بعد جنگ و جدل اور لاکھوں انسانوں کے سروں کے سودا پر منتج ہوئی حالانکہ  ہمارے قریبی ہمسایہ و تاریخی اقوام ایرانیوں و ترکوں نے اس نظریاتی کشمکش میں مبتلا ہو کر انسانی زندگی و سماجیات کو پامال نہیں کیا بلکہ مذہبی قیادتوں کے ہاں  امن و ترقی کا پائیدار سفر شروع کیا ہے،،،

 پشتونوں کو اس امر کی طرف توجہ دینا ہوگی کہ لمحہ موجود میں بحثیت مجموعی ان کی بقاء، رواداری ، امن، تعلیم و ٹیکنالوجی اور تبدیلی و توانائی قبول کرنے میں ہیں،,ٹیکنالوجی اور ابلاغ کے نئے ذرائع ہماری فرسودہ روایات اور سادگی و جہالت پر مشتمل قبائلی نظام اور جامد مذہبی تصورات کو پارہ پارہ کر رہے ہیں اس لئے آج ہم منصوبہ بندی اور نئے زمانے و حالات کے مطابق ہتھیار و تدابیر اختیار  کرنے کےبجائے فریاد و ماتم کناں ہیں،ھمیں جلد ازجلد اس روئیے کو ترک کرکے ہوش و عقل مندی کے ساتھ، نئی دنیا کے آداب ورفتار کو قبول کرنا ہوگا،،

 پشتونوں کے درمیان نظریاتی تقسیم،افکار و آراء کا اختلاف اور تنازعہ افغانستان،طویل تر مہیب سائے و پردوں میں چھپ  چکا ہے جس کا آسانی سے سرا اور معقول راستہ، ہمارے اچھے ادیبوں دانشوروں کو نظر نہیں آتا جس کی بنیادی وجہ اپنے اپنے خیالات اور نظریات پر جم کر لڑنا ہے، ہم بحیثیت قوم و ملت دو بنیادی دھاروں میں تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں مذہب و مسلک پرستی اور نسلی و قومی تصور زندگی میں پیچلھلے ایک صدی سے بری طرح تقسیم در تقسیم ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ تقسیم در تقسیم نے پورے دینا کے ممالک اور نظریات و مفادات کو افغانوں کے

 پہلے گھر  افغانستان در لائے جس سے بحثیت مجموعی پوری پشتون قوم و ملت نصف صدی سے بری طرح متاثر رہی ہے ،

 بنیادی اصول ہے کہ

 جھگڑے اور تقسیم کے دونوں فریق حق پر نہیں ہوتے اور حقائق کے قریب نہیں  ہوتے بلکہ ہمیشہ مکالمہ،رواداری اور جرگہ نیا اور عدل پر مبنی راستہ تجویز کرتا ہے،،

پشتونوں  کا المیہ یہ ہے کہ ھم اب تک مکالمے و جرگے کے روادار نہیں ہوئے ہیں،،،

 میں کسی ایک فریق کو ملامت اور دوسرے کو شاباش نہیں دے رہا ہوں بلکہ میں بحیثیت مجموعی پشتون ادیبوں اور دانشوروں مرد و خواتین اور نوجوانوں سے  درخواستگار ہوں کہ آخر دوسروں کے مفادات اور نظریات و افکار پر ہم کب تک باہم تقسیم در تقسیم اور آویزش کا شکار ہونگے_

 آج وقت ہےکہ ھم اپنے کردار، نظریات، اقدار و رسوم اور اپنے مفلوک الحال و درد زدہ سوسائٹی کا جائزہ لیں اور

 بے جاء تنقید،الزام تراشیوں، ذہنی عیاشی اور بے وقت پیغوروں کے بجائے حقائق اور بدلتی دنیا کی ضروریات کا ادراک کریں،

بنوں میں ہونے والے جرگہ اور اب گیارہ اکتوبر و جرگوں کے  اعلامیوں سے اختلاف و اتفاق دونوں ممکن ہیں مگر دو  تین نکات کلیدی نوعیت کے ہیں ایک خواتین اور نوجوانوں و بچوں کے حقوق و مفادات پر نئے پیراڈایم میں عمرانی ارتقاء و سماجی شعور کی بیداری کے تناظر میں غور وفکر کی ضرورت مسلمہ ہیں دوسرے نکتے میں حکومتوں کی تبدیلیاں اب بندوق و فوجی یلغاروں کے بجائے عوام کے رائے و دانش مندی سے تبدیل ہونے کا فیصلہ پشتونوں کو بحثیت مجموعی قوم و ملت کے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ممکنہ طور پر ہم بیرونی مداخلت سے محفوظ رہ سکیں اور تعمیری ماحول کی تشکیل و تعبیر نو کے لئے نئے زمانے کے بدلتے ہوئے رحجانات و ترجیحات کے مطابق پالیسیاں تشکیل دینے میں کامیابیاں حاصل کر سکیں اور ٹیکنالوجی و ڈولیپمنٹ کے نئی دینا سے آشنا ہوسکیں ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں _اب یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ ہم اس امر کا ادراک و احساس کرسکیں کہ  تعلیم و تدریس، ٹیکنالوجی اور بدلتے  حالات میں معاشی اقدار کا تعین ثقافت و تہذیب سے ھم آہنگ ھوں تب قومیں  ترقی کرتی ہیں، پشتون ثقافت و تہذیب،

اذکار رفتہ اور جمود کا شکار رہا ہے، جس میں نوجوانوں اور بچوں کے

 حقوق و مسائل خواتین اور بچیوں کے درد و الم کا ذکر نہیں ہے اور اگر ہے بھی تو 

اس کی تصویر کشی مخصوص تصور کی عینک سے کی گئی ہے۔ حالانکہ بیسویں صدی کے معروف عالم و محقق ڈاکٹر اسٹیفن آر کوئے اپنے مشہور زمانہ کتاب

,, زندگی بدلنے کے

 سات موثر عادات،،

میں کہتے ہیں کہ ترقی و خوشحالی کے لئے پہلا قدم مثبت و توانا اپروچ اختیار کرنے کا فیصلہ ہے مدتوں سے پہنے ہوئے عینک اتار کر لائحہ عمل تشکیل دینے کی مشق کریں گے تو فرد و معاشرہ اور قوم و ملت کی تشکیل و تعمیر نو ممکن العمل ہوسکیں گا _ جبکہ ممتاز ماہر قرآنیات و اقبالیات ڈاکٹر برہان احمد فاروقی مرحوم

 ,, معاشرتی مؤثرات ،،

کی نشاندھی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کے بدل جانے سے زندگی بدل جاتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ,, مؤثرات زندگی میں علم ، اخلاق ، مذہب ، معاشرت ،معشیت ، سیاست ، تعلیم اور ثقافت داخل ہیں ـ زندگی میں دو قسم کی تبدیلیاں پائی جاتی ہیں ـ ایک وہ جو ہمیشہ سے کامل ہیں ، وہ اخلاق و مذہب ہیں ـ ارتقاء پذیر اقدار میں علم ، معاشرت ، معشیت ، سیاست اور تعلیم داخل ہیں ـ ان اقدار میں ترقی انسانی جدوجھد سے ہوتی ہے ـ،،

کیا بحیثیت مجموعی ہم ان خطوط پر سوچتے ہیں یا ممکنہ طور پر معاشرتی و سماجی شعور کی بیداری اور انسانی نفسیات و ذہانت کے فروغ کے لئے ضروری کردار و اقدامات اٹھانے کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں ـ

21 ویں صدی کے

 ٹیکنالوجی کا تقاضہ ہےکہ 

ھم اپنے ملی ارمانوں و سماجی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے نئے لٹریچر تخلیق کریں، مادری زبان کو تعلیم وہنر کا ذریعہ بنائیں،،

 ٹیکنالوجی کے استعمال کو فتویٰ بازی اور ڈنڈے سے نہ روکیں ، بلکہ اس کے مثبت و توانا استعمال اور ٹولز tools کو رائے عامہ کی تبدیلی و ترقی کا ذریعہ بنائے,نظریاتی مباحث،تقسیم و خلیج کو بڑھانے،اشتعال کا ذریعہ بنانے اور دھشت گردی کے بجائے رواداری ،نرمی اور

آبرو مندانہ طریقے سے 

مکالمے کا ذریعہ بنائیں اور

 اپنے طویل و عزت مندانہ تاریخ سے مثبت روایات اور برداشت و تحمل کو ادھار لے کر عصر حاضر کی ضروریات و توانائی کے حصول کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کے بعد مکالمہ و ڈائیلاگ  کا آغاز کریں تاکہ ہم قتل و غارت گری،بے عزتی اور بربادی ،بھوک و جہالت اور فرسودہ خیالات و غلامانہ نظریات سے آزاد ہوکر علم و ہنر اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہو کر اچھے و بھرپور انسانی قافلے اور خلیفتہ اللہ یعنی زمین کے  مالک کے نائب کے طور پر اپنے منصبی ذمہ داریوں کی جانب قدم بڑھا سکیں ـ


استاد محترم اکیسویں صدی کے معروف مصنف و دانشور پروفیسر ڈاکٹر محمد عارف خان نے عصر حاضر کے معاشرتی ترقی و خوشحالی اور امن و سلامتی کے حصول کے لئے پانچ نکاتی ایجنڈا و پیراڈایم تجویز فرمایا ہے کہ عصر حاضر میں مثالی معاشرے کی پہچان درج ذیل اداروں کے استحکام و کارکردگی سے وابستہ ہیں یہ ایک معیار و میزان ہے ـ

@01 ـ سیاسی استحکام- 

@02ـ معاشی استحکام- 

@03ـ معیار تعلیم کی عملی و اطلاقی نوعیت -

@04ـ افراد معاشرہ کے لئے طبی سہولیات کا معیار ـ

@05ـ انصاف کی عام نوعیت ،کیفیت اور 

حقوق انسانی ـ@@@ 

 پشتون دانشوروں،ادیبوں و علماء کرام، قائدین و قبائلی مشیران ،کوئٹہ و پشاور  میں  حکومتی منصب داروں کی ذمہ داری ہیں کہ وہ حالات کے جبر اور تبدیلی کی لہر کو سمجھیں اور بدلتی دنیا میں اپنے مزاج و ذوق اور نظریات و افکار  پر غور کریں، تب یہ ممکن ہے کہ ہم کابل و قندھار میں بھی معاونت فراہم کرسکیں یا دینا ء عالم میں منتشر و ہنر مند نوجوانوں اور طلباء وطالبات کے ساتھ ساتھ خواتین اور بزرگوں کے ارمانوں و آرزوؤں کی تکمیل و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے مثبت و ثمر بار قدم بڑھانے میں کامیاب ہو سکیں _

 آج رسوم و رواج میں خواتین کےلئے قرآن و سنت اور سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں عطا کردہ  حقوق کی فراہمی 21 ویں صدی کے معروف تقاضوں اور اقوام متحدہ کے عالمی ثقافتی چارٹر کےمطابق  یقیینی بنانا ہو گا۔ ،،،

مذہبی اقدار اور تقدیر و ایمان  کا صوفیانہ قبائلی ذھنیت سے تشریح قابل قبول نہیں،،

  مادیت،ضروریات زندگی اور نظریاتی زندگی ، سورج کی کرنوں کی طرح اٹل حقیقت ہیں،  ابدیت  وآخرت اور وحی کے بغیر مغرب کی چکاچوند اور مادی ترقی عبث ہیں،،، 

 اس لئے توازن کے ساتھ کائنات کی فطرت اور انسانی ساخت و تقویم کے لیے بنائے گئے ازلی و ابدی قوانین کی روشنی میں لمحہ موجود کے وسائل اور ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے کلچر و ثقافت اور اقدار و تہذیب کے نئے پیمانےو زاوئیے وضع کیے جائیں گے،،،

یہ آج کی تیز رفتار زندگی کا زندہ سوال ہے اسے نظر انداز کرنے سے تاریخ ھمیں معاف نہیں کرے گی۔

 کسی شاعر نے

 کیا خوب کہا ہے،

@پھر سے بجھ جائیں گی

 شمعیں جو ہوا تیز چلی ـ

@لا کے رکھو سر محفل

 کوئی خورشید اب کےـ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot