چھوٹے ہاتھ جو محنت کرتے ہیں
تحریر۔۔ مقدس زہری
شہر سے دور وادیوں اور گھاٹیوں کے بیچ وسیع کھیتوں اور بیابانوں میں بسا ہوا چھوٹے سے گاؤں میں اویس رہا کرتا تھا جہاں کا ہر فرد پیر و جوان بلکہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی شہر کے کارخانوں میں محنت و مشقت سے دن گزارتے تھے اویس کی عمر صرف 10 سال تھی، لیکن اس کی زندگی پہلے ہی چائلڈ لیبر کی تلخیوں کی زد میں تھی-
اویس کا والد عمر دین محنتی اور جفا کش تھا اویس اپنے والد کا اکلوتا بیٹا تھا اویس کے والدین اگرچہ ہچکچاتے تھے مگر شہر کی قریبی فیکٹری میں کام کرنے کے لیے اویس کو بھیجنے پر مجبور تھے
فیکٹری مینیجر مسٹر کمار نے معمولی اجرت پر اویس کو اپنے کارخانے میں بھرتی کرتے ہوئے کام کی نوعیت بھی بتا دی اور یونہی اویس نے اپنی ہر خواہش سے خود کو آزاد کرکے اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ اٹھالیا وہ ہر صبح طلوع آفتاب سے پہلے جاگتا اور بروقت کارخانہ پہنچنے کے لئے روانہ ہوتا- اویس اکیلا نہیں بلکہ اپنے گاؤں کے درجنوں دوسرے بچوں کے ساتھ جن کی عمریں 14 سال سے کم تھیں، فیکٹری کے مدھم روشنی والے کوریڈورز میں شامل ہوتے اور نرم ہاتھوں سے سخت کام انجام دیتے
کھلونے جمع کرنے والے ہاتھ مشقت کرتے دیکھ کر دماغ سن ہو جاتا ہے۔
اویس کی انگلیوں میں کٹوتیوں اور خروںچوں سے خون بہہ رہا ہوتا ، لیکن وہ شکایت کرنے کی ہمت نہیں کرتا یوں ایک دن ایک مہربان کارکن فرید نے فیکٹری کا دورہ کیا۔فرید نے بچوں کو محنت کرتے دیکھا ان کی آنکھیں نم ہوئی وہ جانتا تھا کہ اسے اب اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ فرید نے سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے انتھک محنت کی، سرکاری حکام اور مقامی لوگوں کو اس مقصد میں شامل ہونے کے لیے اکٹھا کیا۔
آہستہ آہستہ لہر بدل گئی۔ فیکٹری بند کر دی گئی، اور بچوں کو آزاد کر دیا گیا۔ اویس، آخر کار، اسکول جا سکتا تھا، اس کے ہاتھ اب پینسل پکڑے ہوئے تھے، اوزار نہیں۔
اس نے سیکھنے کی محبت دریافت کی، اس کا دل امید سے بھر گیا۔ لیکن چائلڈ لیبر کی نشانات باقی رہے، جو اس نے درپیش جدوجہد کی یاد دہانی کرائی۔ اویس نے ان لوگوں کے لیے لڑنے کا عہد کیا جو ابھی تک پھنسے ہوئے ہیں، اس کی آواز اب تبدیلی کی کرن ہے۔
آئیے مل کر چائلڈ لیبر کے خاتمے کے لیے کام کریں اور بچوں کو وہ بچپن دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں