پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین تعلیم کے میدان میں اعلی کیرئیر کی مالک ۔
کسی بھی معاشرے میں اعلیٰ تعلیم کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد طلبا ملک کی تعمیر و ترقی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت پاکستان میں صرف دو جامعات تھیں‘ ایک پنجاب یونیورسٹی اور دوسری ڈھاکہ یونیورسٹی‘ لیکن پچھلے 76 برسوں میں جامعات اور ڈگری دینے والے اداروں کی تعداد بڑھ کر 216 کے قریب ہو گئی ہے۔ وائس چانسلر کے مرکزی کردار کی حد تک سب کو اتفاق ہے ایک مؤثر وائس چانسلر جامعہ کو ایک ویژن دیتا ہے۔ ان اہداف کو اپنے رفقائے کار کے ساتھ شیئر کرتا ہے۔ ان اہداف کے حصول کے لیے انہیں انسپائر کرتا ہے‘ اپنے اہداف تک پہنچنے کے لیے ایک حکمت عملی کا تعین کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جامعہ میں ایک ایسے ماحول کی صورت گری کی کوشش کرتا ہے جہاں فیکلٹی، سٹاف اور طلبا کی پیشہ ورانہ نمو ہو سکے اور جہاں کے سازگار ماحول میں تحقیق کی راہ ہموار ہو سکے۔ ایسی تحقیق جو ہمارے معاشرے کے سماجی، اقتصادی اور ثقافتی مسائل کے جوابات تلاش کر سکے۔اعلیٰ تعلیم کی تاریخ میں کئی ایسے وائس چانسلرز کے نام جگمگاتے نظر آتے ہیں جنہوں نے اپنے ویژن حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے یونیورسٹی کے معیار کو بلند کیا۔ یہ ایسی شخصیات تھیں جن کا تعارف ان کا عہدہ نہ تھا بلکہ ان کا علم اور کردار ہی ان کی شخصیت کا تعارف تھے۔ چند ناموں کو دیکھیے ‘ ڈاکٹر ذاکر حسین (علی گڑھ یونیورسٹی)، ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین‘ ڈاکٹر جمیل جالبی‘ ڈاکٹر اشتیاق قریشی (کراچی یونیورسٹی) ڈاکٹر حمید احمد خان (پنجاب یونیورسٹی)اور پروفیسر کرار حسین (بلوچستان یونیورسٹی) یہ سب اپنی تعلیمی فضیلت کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب وائس چانسلر کا رعب اور دبدبہ ہوا کرتا تھا اور جامعہ کی سلطنت میں کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ ہمارا معاشرہ عہدِ حاضر کے وائس چانسلرز سے ان سب خصوصیات کی توقع رکھتا ہے لیکن عام آدمی عہدِ حاضر کے وائس چانسلرزکو درپیش مشکلات سے واقف نہیں۔۔ ان موضوعات میں تعلیمی اصلاحات اور ان کے چیلنجز‘ سٹریٹیجک پلاننگ، فنانشل پلاننگ، لیڈرشپ اور مینجمنٹ، پروکیورمنٹ، انڈسٹری اور تعلیم کا باہمی تعلق، تدریس اور تعلم کے جدید طریقے، کوالٹی اسیسمنٹ، لرننگ مینجمنٹ سسٹم وغیرہ شامل تھے۔اگر بات کی جائے تو وائس چانسلرز کی تعلیمی آزادی وقت کے ساتھ ساتھ سکڑتی چلی گئی اور معاشرے کے مختلف عوامل کا گھیرا ان کے گرد تنگ ہوتا گیا۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں تین طرح کی یونینز ہوتی ہیں جو یونیورسٹی فیکلٹی، سٹاف اور طلبا کی نمائندگی کرتی ہیں۔ وائس چانسلرز کے گرد دوسرا گھیرا نام نہاد اور غیر معیاری میڈیا کا ہے۔ دور دراز کے علاقوں کے غیر معروف اخبارات وائس چانسلر کی حرکات و سکنات پر مکمل نظر رکھتے ہیں اور منفی خبروں کے عوض چھوٹی چھوٹی مراعات کے خواہاں ہوتے ہیں۔ وائس چانسلرز کے گرد ایک اور گھیرا نوکر شاہی کا ہے۔ کس طرح ان کی فائلز کو مختلف تنگناؤں سے گزرنا ہوتا ہے جن میں وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن، صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن، سی ایم آفس، گورنر آفس اور لا ڈیپارٹمنٹ شامل ہیں۔ وائس چانسلر آفس کے گرد چوتھا گھیرا سیاسی نمائندوں کا ہوتا ہے جو اپنے حلقے کے ووٹرز کی خوشنودی کے لیے انہیں نوکریاں دلانے کے لیے وائس چانسلرز کے درپے ہوتے ہیں‘ کئی دفعہ تو بات دھمکیوں سے بڑھ کر جسمانی تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔اب میں اگر اپنے صوبے بلوچستان کی ویمن یونیورسٹی کی بات کروں تو یونیورسٹی کے حوالے سے متنازع معاملات سامنے آنے پر سوشل میڈیا صارفین نے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے ہماری جامعات کے بارے میں اچھی خبریں آنے کی بجائے ہر تھوڑے دنوں بعد کوئی نیا تنازعہ سامنے آ جاتا ہے میں جس یونیورسٹی کی بات کر رہا ہوں وہ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی حقیقی معنوں میں ایک منفرد ادارہ ہے ڈاکٹر ساجدہ نورین ایک قابل اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ان کی زیرِ نگرانی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی تاریخی ترقی کے راستے پر گامزن ہے جس کی بدولت یونیورسٹی کی رینکنگ میں تاریخی کارگردگی رونما ہوئی ہے۔حالیہ برسوں میں یونیورسٹی میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں جن میں کئی نئے شعبے، مراکز اور سیول سروسز امتحانات وغیرہ قائم ہیں۔یونیورسٹی کی اس منفرد خصوصیت کے باعث وائس چانسلر کو عظیم چیلنجز کا سامنا بھی ہے۔ شاید کچھ تعلیم دشمن اور بلیک میلرز لوگوں کا خیال ہو کہ وائس چانسلر مینیج نہ کر پائے لیکن بنیادی طور پر ان چیلنجز اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا نام ہی اصل میں وائس چانسلر شپ ہے۔‘ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر ساجدہ نورین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے تو وہ کوشش کریں گی کہ وہ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام دے سکیں۔اگر موجودہ وائس چانسلر سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی ڈاکٹر ساجدہ نورین کی زندگی پر ایک مختصر جائزہ لیں تو پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین ایک ممتاز پاکستانی ماہر تعلیم ہیں، جو اس وقت سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی، کوئٹہ کی وائس چانسلر کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ایک بھرپور تعلیمی پس منظر کے ساتھ، ڈاکٹر نورین نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پاکستان سے تعلیم اور ترقی کے درمیان تعلق پر مبنی تحقیقی کام کے ساتھ انہوں نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا نمونہ پیش کیا۔ اس کا M.S. برطانیہ سے ہے، جہاں اس نے ایک ایسے شعبے میں مہارت حاصل کی جو تعلیمی پالیسی اور منصوبہ بندی کے لیے اس کے جذبے کو یکجا کرتی ہے۔ ڈاکٹر نورین کا پیشہ ورانہ سفر کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس میں تعلیمی اور تعلیمی قیادت میں اہم شراکتیں ہیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کی ڈائریکٹر،بلوچستان یونیورسٹی کے فیکلٹی ٹریننگ اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کی بانی ڈائریکٹر اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے وائس چانسلر جیسے قابل ذکر کردار شامل ہیں۔تعلیم کو آگے بڑھانے کے لیے اس کی لگن اس کے وسیع تدریسی تجربے سے ظاہر ہوتی ہے، جہاں اس نے ماسٹرز اور ایم فل جیسے پوسٹ گریجویٹ سطحوں سمیت مختلف تعلیمی سطحوں پر طلبہ کو ہدایات دی ہیں۔ ایک ماہر تعلیم کے طور پر ڈاکٹر نورین نے تحقیق اور اسکالرشپ میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ اس نے متعدد ایم فل کی نگرانی کی ہے۔ ریسرچ اسکالرز اور نصاب کی ترقی کے اقدامات میں فعال طور پر شامل رہی ہیں۔تعلیمی انتظامیہ اور نگرانی میں ان کی مہارت بلوچستان اور اس سے باہر کے تعلیمی اداروں کے تعلیمی منظرنامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہے۔ وہ مختلف مشاورتی بورڈزاورسینیٹ کمیٹیوں ، بشمول COMSATS یونیورسٹی، BUITEMS، میر چاکر رند یونیورسٹی سبی، انجینئرنگ یونیورسٹی خضدار، اور بہت سی دوسری یونیورسٹیوں میں تعلیم میں ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر نورین نے اپنے پورے کیرئیر میں متعدد اعزازات حاصل کیے ہیں، جن میں 2023 میں حکومت بلوچستان کی طرف سے تعلیم میں صوبائی ایکسیلنس ایوارڈ بھی شامل ہے۔اپنے انتظامی اور علمی کرداروں سے ہٹ کر ڈاکٹر نورین تعلیم کے اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے متنوع اشاعتوں کے ساتھ ایک قابل مصنفہ ہیں۔ اس کی تحقیق میں غربت کے خاتمے اور بے روزگاری کے تعلیمی کامیابیوں پر ICT پر اثرات تک کے موضوعات شامل ہیں۔ ان کا کام ممتاز جرائد میں شائع ہوا ہے اور پاکستان میں تعلیم پر گفتگو میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔اپنے علمی مشغلہ کے علاوہ ڈاکٹر نورین قومی اور بین الاقوامی کانفرنسوں اور ورکشاپس میں سرگرم حصہ لیتی ہیں، جہاں وہ ساتھیوں کے ساتھ اپنی مہارت اور بصیرت کا اشتراک کرتی ہیں۔ ریاستہائے متحدہ، سنگاپور اور جنوبی کوریا میں کانفرنسیں شامل ہیں، جو عالمی سطح پر تعاون اور علم کے تبادلے کو فروغ دینے کے لیے اس کے عزم کی عکاسی کرتی ہیں۔ خلاصہ یہ کہ پروفیسر ڈاکٹر ساجدہ نورین تعلیم کے میدان میں ایک ممتاز کیرئیر کے ساتھ، قیادت، اسکالرشپ، اور سب کے لیے تعلیمی مواقع کو آگے بڑھانے کے لیے ثابت قدم عزم کے ساتھ نمایاں ہیں۔ صوبے کی واحد خاتون یونیورسٹی کی بطور وائس چانسلر قیادت کرتے ہوئے، وہ علم اور ہنر کے ذریعے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، جو ایک کامیاب اور پرامن پاکستان کے لیے ضروری ہیں۔موجودہ وی سی کا اہدف بہت ہی بلند دکھائی دے رہا ہیں اور ان کو حاصل کرنے کیلئے وائس چانسلر ڈاکٹر ساجدہ نورین پر عزم ہیں۔ وہ اس ادارے کو صوبے اور پاکستان کی بہترین یونیورسٹیز میں لانا چاہتی ہے اور صوبے میں پہلے نمبر پر دیکھنا چاہتی ہیں یہ اہدف قطعًا آسان نہیں ہیں لیکن ان کی کارگردگی یہ بتاتی ہے کہ سب ممکن ہے۔ ڈاکٹر ساجدہ نورین بہت محنت کر رہی ہیں اور ایک بڑی یونیورسٹی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم ملک و قوم کی ترقی اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں وائس چانسلرز کے گرد طرح طرح شکنجے تنگ کرنے بعد بھی ان سے مثالی گورننس کی توقع ہے۔ شاید اسی موقع کے لیے حافظ شیرازی نے کہا تھا:
در میانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہوشیار باش
(ترجمہ: تو نے مجھے ایک تختے کے ساتھ باندھ کر سمندر کی گہرائی میں پھینک
دیا اور پھر یہ کہا کہ خبردار دامن بھیگنے نہ پائے)
https://youtu.be/GY-_qnvX-Ig?feature=shared
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں