عصری خلفشار میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کردار:
تحریر: انجنئیر محمد صدیق کھیتران
برطانیہ کے مشہور ناول نگار جارج اروول نے کہا تھا۔
"معاشرے کو تباہ و برباد کرنے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہے۔کہ اس کی عوام کو درست تاریخ پڑھنے، آگے بڑھنے اور سمجھنے کی راہ میں ہر قسم کے روڑھے اٹکا دیئے جایئں"۔
کیا فیس بک، ٹک ٹاک، ئوئٹر، یوٹیوب، وٹس اپ اور انسٹاگرام لاعلم پلیٹ فارم ہیں۔انہیں نہیں معلوم جو فیک مواد اپ لوڈ ہوتا ہے اس کا مشکل سے 10 فی صد ہی سچ ہوتا ہے۔اتنا سچ بھی اپنے جھوٹ کو نمکین بنانے اور لوگوں میں کنفیوژن پھیلانے کیلئے ہوتا ہے۔ اس سے تاثر ملتا ہے ۔ٹیکنالوجی کو حقائق سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ان کو زیادہ سے زیادہ ریونیو کمانے کی فکر رہتی ہے۔لہزا انہوں نے اپنے اپنے پلیٹ فارموں پر سفید جھوٹ کیلئے مصنوعی گھاس کی چٹائی بچھا رکھی ہے۔اس پر ناپختہ اذہان کیلئے بھیڑچال کا میدان سجا رکھا ہے۔جہاں وہ سچائی سے ماورا، ویڈیو گیمز کا رئیل ٹائم کھیل، کھیل رہے ہوتے ہیں۔ٹکنالوجی کے دانستہ بد عمل سے تین چیزیں سامنے آئی ہیں۔
1 آن لائن معلومات کا ماحول ناقابل بھروسہ بنادیا گیا بلکہ ڈیجیٹل معلومات نے شائستگی اور منطق کو حقیقی دنیا سے دور کردیا ہے۔
2 آن لائن معلومات جعلی اور سیاہ کرداروں کو کمرشلائز کرنے میں تقویت فراہم کرنے کا باعث بنا ہے۔
3 ٹیکنالوجیکل کمپنیز سیاسی جماعتوں کے اندر طاقت کو ایک ہی شخص کے اندر مجتمع کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی ملکوں کے اندر سیاسی و سماجی تقسیم کو گہرا کرنے کی مرتکب ہوئی ہے۔
ڈنمارک کے مشہور فلاسفر سورنس کیرکیگارڈ کہتےہیں ۔
" انسان بہت سارے طریقوں سے دھوکہ کھاتے ہیں کبھی وہ جھوٹ کو سچ سمجھ کر اور کبھی سچ کو نہ مان کر دھوکہ کھاتا ہے"
ٹیکنالوجی اور خاص کر فیس بک مصنوعی زہانت کے ذریعے ہمارے صدیوں کے تجربے اور ڈیٹا کو ہیراپھیری اور چالاکی سے ایسے منظم کرتی ہیں ۔جس سے انسانی تہذیب کو گراوٹ کا سامنا ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر "سوشانو ضوباف" کہتی ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پلیٹ فارم جھوٹ کے ذریعے استحصال پر مبنی "سرمایہ دارانہ نظام" کو تحفظ فراہم کررہے ہیں۔اور حکومتوں نے بگاڑ کے اس عمل کو جاری رکھنے کا مکمل موقع فراہم کر رکھا ہے۔
اکیسویں صدی کے محققین کے مطابق، فیس بک و دیگر کمپنیاں تہزیب اورخلق خدا کوتحفظ دینے کی بجائے دھن دولت کمانے کے درپے ہے۔ مسابقت کے اس دور میں وہ مواد کی حقانیت اور معاشرتی قوانین کو درخور اعتنا نہیں سمجھتیں ۔ان کو اپنے 3 ارب صارفین کے مفادات کا کوئی خیال نہیں۔2020 میں فیس بک کی آمدنی 86 بلین ڈالر تھی۔ جو 2023 میں 40 فی صد بڑھ کر 120 بلین ڈالر ہوگئی ہے۔ستمبر2015 میں اس کے ملازمین کی تعداد 16744 تھی جو اب بڑھ کر 86482 ہوگئی ہے۔حالانکہ اس کا ساراکام آن لائن ہوتا ہے۔یہ کمپنیاں سیاست دانوں اور بزنس کرنے والوں کو جھوٹ و نفرت کا پرچار کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ اس کا ثبوت یہ ہے دنیا میں شدت پسندی کو پھیلتے وقت انہوں نے خاموشی اختیار کی ۔خود امریکہ کی سوسائٹی اس نفاق سے بچ نہ پائی۔گارڈین اور آبزرور کی مشہور صحافی "کیرول کاڈوالڈار" نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پھیلائی ہوئی شر کی رسی کے دوسرے سرے کو اس وقت پکڑ کر طشت از بام کیا۔جب اس نے نیویارک ٹائمز میں انٹرویو دیتے ہوئے خفیہ کرداروں سامنے لایا۔اس نے بتایا کیسے سیاسی کنسلٹنٹ کمپنی "کمبرج اینالیٹیکا" نے فیس بک سے صارفین کا ڈیٹا اٹھا کر مجرمانہ انداز میں برطانیہ کو یورپین یونین سے ریفرنڈم کے ذریعے نکالنے اور 2016 کے امریکی انتخاب میں رونالڈ ٹرمپ کو جیتوانے کیلئے پیشگی کیمپین کا حصہ بنایا۔ کس طرح جدید سائنس کے دور کی دو بڑی عالمی طاقتوں کے ووٹروں کو گمراہ کرنے میں وہ کامیابی رہی ہیں ۔امریکی کانگریس نے"کیرول کاڈوالڈار" کے بیان پر فیس بک کے مالک مارک ذوکربرگ کو طلب کیا اور جھوٹ پھیلانے کاجرم ثابت ہونے پر محض 5 بلین ڈالرز کا جرامانہ ڈالا۔حالانکہ اس کا جرم دیوانی کی نسبت کریمنل نیچر کا تھا ۔تاہم کسی بھی ٹیکنالوجیکل کمپنی کیلئے یہ سب سے بڑا مالی جرمانہ تھا۔ مخمصہ یہ ہے ابھی تک گلوبل سطح پر مربوط ریگولیٹری نظام بن سکا ہے اور ناہی فیک نیوز اور گرد اچھالنے کا سلسلہ روکا جاسکا ہے ۔ خود سابق امریکی صدر ڈونالٹ ٹرمپ نے 6 جنوری 2021 کو اپنے حامیوں کو کیپیٹل ہل پر حملہ کرنے پر اکسایاہے۔ پاکستان میں سابق وزیراعظم اپنے حامیوں کی طاقت پر اتنے نازاں تھے کہ اس نے عدلیہ کے اندر بیان دیا۔ اگر اس کو گرفتار کیاجائے گا۔تو اس کے سوشل میڈیا "فالوورز" ملک کو نہیں چلنے دینگے۔اس میں تو کوئی شک نہیں پاکستان میں 2024 کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے زور پر انتخاب لڑا ہے۔یہی وہ پوشیدہ کمزوری ہے جہاں فالوورز کا دھیان بنیادی معامالات سے ہٹا رہتا ہے۔اتنے بڑے سوشل میڈیا کے باوجود آج تک عمران خان اپنا کوئی معاشی یا سیاسی پروگرام عوام کو نہیں دے سکا۔ محض جزباتی فیصلے نتیجہ نہیں دیتے۔ اس سے آگے چل کر معاشروں میں مایوسی پھیلتی ہے۔جس کا سب سے بڑا شکار نوجوان نسل بنتی ہے۔ آج بھی امریکہ کی 40 فی صد عوام سمیت 10 فیصد ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ گزشتہ امریکی انتخاب میں ٹرمپ جیتا تھا۔ادھر پاکستان میں 9 مئی 2023 اور اس سے پہلے 10 اپریل 2022 کے قائد ایوان کے عدم اعتماد پر خلفشار ان ہی پلیٹ فارموں کے غلط استعمال کی بدولت ہوا تھا۔
ہم کہہ سکتے ہیں ،انفارمیشن ٹیکنالوجی نے امریکہ میں 2016 کے الیکشن میں بحران پیدا کیا۔برطانیہ کو غلط طریقے سے یورپین یونین سے علیحدہ، یورپ کے اندر مہاجرین کا مسلہ اور خاص کر شام کے جنگ زدہ افراد کیلئے مشکلات کا سبب بنا۔برازیل میں ڈیماگاگ" جیر بولنسارو " کو مرکزی لیڈر بنایا۔ہنگری میں نسل پرست وکٹراوبان، ہندوستان میں مذہبی شدت پسند نرندرا مودی، پاکستان میں ڈیماگاگ اور پلے بوائے سیاست دان عمران خان کو مصنوعی لیڈر بنانے میں کامیاب ہوا۔ ان کرداروں نے زیادہ وقت گالم گلوچ اور نفرت پھیلانے میں لگایا۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے نیوزی لینڈ، ناروے اور آسٹریلیا جیسے پرامن ممالک خون سے لت پت ہوئے۔فسطائی نعرے " ہم اورآپ" کی تخصیص بڑھی۔
ڈگماتے معاشرتی ماحول پر فیس بک اپنے ردعمل میں کہتی ہے۔عوام کوزیادہ سے زیادہ معلومات ملنی چاہیئے۔ اور دوسرا یہ کہ معلومات کو تیز رفتار ہونا چاہیئے۔ جھوٹ، نفرت ، شر انگیز تقاریر و تحریر ، ساذشی بیانیئے ، پلانٹڈ معلومات، شخصی حملے اور سنسنی خیزی کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنا چاہیئے۔یہ درگزر فیس بک اپنے مقصد کے حصول میں ناگزیر سمجھتی ہے۔کیونکہ اس کاروبار سے اس کو مالی منفعت حاصل ہوتی ہے۔جب حقائق غلط ملط ہوجانے کی آزادی ہو۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی جوابدہی کی ذمہ داری نہ لے ۔ تو سماج میں خوف و اشتعال بھڑکے گا۔تب سوسائٹی کے اندر عدم تحفظاور جذبات واحساسات ملیامیٹ ہونگے ۔شرم و حیا کے ساتھ زندگی کی اقدار بدلیگی۔سماج میں ایسے راہنما پیدا ہونگے جن کو اچھی حکومت کی بجائے اقتدار عزیز ہوگا۔تو پھر مشکلات کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول بھی مصلحت کا شکار ہونگے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی اکیسویں صدی میں زندگی کا حصہ ہے اس سے مفر ممکن نہیں۔ کسی زمانے میں سگریٹ کی کمپنیاں فلاحی کاموں میں چندے جمع کرکے انسانی صحت کو منظم طریقے سے تباہ کرتی تھیں۔ لاکھوں کروڑوں لوگ سرطان ، دمے اور ٹی بی میں مبتلا ہوتے رہے۔کافی عرصے بعد عالمی صحت کی تنظیم نے زوردار طریقے سے ان روجہانات کو روکا۔
اسی طرح ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی ٹیلی کمیونیکیشن یونین ،عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انصاف کے اداروں کو آگے بڑھ کر فیک نیوز اور منفی پروپیگنڈہ کے عمل کو موثرانداز میں روکنے کا احتمام کرنا ہوگا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں