بلوچستان میں نظام حکومت کی شفافیت اور فعالیت کے لیے انفارمیشن کمیشن فوری طور پرقائم کیا جائے
سول سوسائٹی کا مطالبہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تحریر امتیازاحمد
پاکستان فیڈریل یونین اف جرنلیسٹس کے سابق
صدراورانٹرنیشنل نیوز ایجنسی) (اے ایف پی )کے بیورو چیف شہزادہ ذولفقار نے اپنی راے دیتے ہوئے کہا کہا سوا تین سالوں میں کمیشن کا نہ بنا
انتہائی
(شہزادہ ذولفقار)
افسوس کا مقام ہے اس کوتاہی کی زمہ داری سابق صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے بیروکریسی بھی نہیں چاہتی اگر یہ پی اسی ڈی پی بڑھانے کے لیے کمشین ہوتا تو کب کا بن چکا ہوتا ، عوامی نمائندوں کو عوام کے بنیادی حق معلومات سے کوئی سرو کار نہیں عوامی نمائندے اور بیروکریسی اپنی جائز ناجائز کاموں کو عوام سے چھپاے رکھنا چائتے ہیں اس معاملے میں ارکین اسمبلی وزرا اور بیروکریسی ایک پلیٹ فارم پر ہیں میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر ایڈ بلوچستان کی ٹیم اورایگزیگٹیو ڈائرئکٹر عادل جہانگیرکو جنہوں نے ایک طویل عرصے سے ارٹی ائی لا بنانے اس پر عمل کرانے اور اب انفارمیشن کمیشن بنانے کے لیے عملی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے عوامی حقوق کے لیے قانون سازی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے فنڈنگ کرنے والی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کا کردار بھی انتہائی اہم رہاہے غیر سرکاری تنظیموں میڈیا تنظیموں اور صحافیوں کو مل کر بلوچستان انفارمیشن کمیشن قیام کے لیے اواز اٹھانے کی ضرورت ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکرٹری اطلاعات حکومت بلوچستان عمران خان نے کہا کہ
معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہےبلوچستان انفارمیشن کمیشن ایک ماہ کے اندر قائم ہوجائے گا
سیکرٹری اطلاعات حکومت بلوچستان عمران خان
کمیشن کے قیام میں تاخیر ہوئی ایکٹ پاس ہونے کےایک سو 20دنوں کے اندر انفارمیشن
کمیشن قائم ہونا تھا مگر ایس اینڈ جی ڈی نے پہلے رولز بنانے کی ہدایت کردی اب رولز
بن چکے ہیں 31 مارچ تک چیف کمیشنر اور کمشنرز کے لیے درخواستیں طلب کی گہ تھی اب
درخواستیں پراسس ہونے کے بعد ایک ماہ کے اندر کمیشن کا قیام عمل میں اجاے گا۔ تمام
محکموں نے اپنے
پبلیک انفارمیشن افیسران
نوٹیفایڈ کردے ہیں ۔انفارمیشن کمیشن کے لیے دس ملین کے فنڈز کی منظوری کے لیے فناس
کو سمری بجوا دی ہے ۔کمشن کے قیام کے بعد ان کی ضروریات اور ہومین ریسورس فراہم کی
جاے گئ بلوچستان میں جلد آر ٹی آئی کمیشن کا وجود
ممکن ہو جائیگا
سیکرٹری نے مزید بتای کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے اس سے مضبو ط سماجی نظام کا وجود ممکن ہوتا ہےاور معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں ان انہوں نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کا عملی طور پر استعمال ہو نے سے لوگوں میں احساس محرومی کا ازالہ ہو جائے گا ،کرپشن کے خاتمےاور احتسابی عمل کے بہتری کے لیے معاون ثابت ہوگا، آ ر ٹی آئی کا قانون تمام محکموں کے شفافیت کےلیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ارٹی ائی لا صوبائی اسمبلی نے 21فروری 2021کو پا س کیا تھا اس کے بعد نومبر 2021 میں میری بطور سیکرٹری اطلاعات تعناتی عمل میں ائی تو میں نے کے پی کے اور پنجاب انفارمیشن کمیشن کی پیروی کرتے ہوئے کمیشن کے قیام کی سمری22نومبرکو ایس اینڈ گی ڈی بجوائی اس سمری کو وزیر اعلی کے پاس منظوری کے لیے بجوانے کی بجائے عتراز لگا کر واپس کردیا گیاکہ کیارولز بناے بغیر کمیشن کا قیام کیسے ممکن ہے لہذا پہلے رولز بنائیں جائیں ان کی منظوری لینے کے بعد سمری بجوائی جائے،اس عتراض کے بعد ہم نے دوبارہ کے پی کے اور پنجاب انفارمیشن کمیشنز سے رابطہ کر کے معلومات لی ت وپتہ چلاکہ رولز کمیشن کود بناتا ہے بارحال رولز بنائے گئے اسی دوران میری ٹرانسفر ہوگئی پھر نگران کابینہ میں الیکشن کمیشن کی ہدایات کی وجہ سے کمیشن کا قیام التوا میں چلا گیا،جب میری دوبارہ پوسٹنگ ہوئی تو میں نے کمیشن کے قیام کے کام کو دوبارہ شروع کیاچیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمشن کمشنرز کے لیے اکبارات میں اشتہار شائع کیا گیا اب درخواستیں اکی ہیں پراسس کے بعد منظوری کے لیے سمیری وزیراعلی کو بجوادی جائے گئی امید ہے کہ اب ایک ماہ کے اندر بلوچستان انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں اجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسامہ خاور ایڈوکیٹ
اسما خاور نے ڈان نیوز میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ارٹیکل میں لکھا ہے کہ
' اب کوئی بھی مقدس گائے' نہیں: آر ٹی آئی قانون پر سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح سمت میں ایک قدم کیوں ہے
زیادہ شفاف پاکستان کی راہ اس طرح کے فیصلوں سے ہموار ہوتی ہے، جس میں ایک ایسے مستقبل کا وعدہ کیا جاتا ہے جس میں ملک کے معاملات جانچ پڑتال کے لئے کھلے ہوں، اور عوام کا اعتماد مضبوط ہو۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی اب صوابدید نہیں رہی بلکہ اب یہ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے جو آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک تاریخی فیصلے میں، جو پاکستان میں شفافیت کے خدوخال کو نئے سرے سے بیان کر سکتا ہے، سماجی تنطیم سی پی ڈی ائی کے مختار احمد علی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف لوگوں کے معلومات تک رسائی کے حق کو برقرار رکھتا ہے بلکہ ان اداروں کو بھی احتساب کے دائرے میں لاتا ہے، جنہیں کبھی جانچ پڑتال کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان عدلیہ، فوج اور پبلک فنانس کے دائرے میں شفافیت کے لیے ایک تاریخی جدوجہد میں مصروف ہے۔شفافیت کی جنگ
پاکستان تاریخی طور پر مدافعتی اداروں کو زیادہ جوابدہ بنانے کے چیلنج سے نبرد آزما ہے طاقت ور اداروں کے اندرشفافیت میں اضافے کے حالیہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، جو ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مختار احمد علی کا کیس کس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں عدالت کی جانب سے آرٹیکل 19 اے میں تبدیلی کی صلاحیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ فیصلے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق صرف مخصوص اداروں تک محدود نہیں ہے بلکہ معزز عدلیہ سمیت تمام عوامی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ ان تاریخی رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے جنہوں نے بعض اداروں کو عوامی جانچ پڑتال سے بچایا تھا اور ایک ایسے ملک میں شفافیت کی طرف ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جہاں طاقت موجود ہے۔بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے مرکزی فیصلے کی حمایت میں ایک اضافی نوٹ لکھا جس میں کہا گیا کہ 'مجھے قانون اور آئین کی واضح تشریح سے اتفاق یا توثیق نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی'۔
چیف جسٹس کے برعکس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ سپریم کورٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے، 'آر ٹی آئی ایکٹ کا سادہ مطالعہ پہلی نظر میں ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کو 'پبلک باڈیز' کی تعریف سے واضح طور پر خارج نہیں کیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ اس تشریح پر منحصر ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق قانون عوامی اداروں پر لاگو ہوتا ہے جیسا کہ ایکٹ میں بیان کیا گیا ہے ، اور اس تعریف میں سپریم کورٹ شامل نہیں ہے۔
اگرچہ یہ قانون "وفاقی قانون کے تحت عدالت، ٹریبونل، کمیشن، یا بورڈ" پر لاگو ہوتا ہے، لیکن آئین کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کو وفاقی حکومت کے عوامی ادارے کے طور پر درجہ بندی نہیں کیا گیا ہے. اس طرح، اس قانون کو سپریم کورٹ پر لاگو نہیں سمجھا گیا۔اپیل کے طریقہ کار کی ضرورت
فیصلے میں ایک اہم خامی ان معاملوں میں اپیل کے طریقہ کار کی عدم موجودگی ہے جہاں سپریم کورٹ آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے، ایک نقطہ نظر میں سپریم کورٹ رولز، 1980 میں ترمیم کرنا شامل ہوسکتا ہے، تاکہ آر ٹی آئی پر ایک مخصوص سیکشن کو شامل کیا جاسکے۔ اس سیکشن میں شہریوں کے لئے معلومات حاصل کرنے کے طریقہ کار کا خاکہ پیش کرنا چاہئے اور ایسے معاملات کے لئے ایک مضبوط اپیل میکانزم قائم کرنا چاہئے جہاں سپریم کورٹ انفارمیشن تک رسائی سے انکار کرتی ہے۔مزید برآں، شفافیت کے معیار میں مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے، اس فیصلے میں لاگو ہونے والے وہی معیار اور حدود پاکستان کی ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں تک بھی لاگو ہونے چاہئیں۔ شفافیت کے اصولوں میں یہ صف بندی زیادہ مربوط اور قابل رسائی عدالتی نظام میں کردار ادا کرے گی۔
مزید برآں، پاکستان کی عدلیہ میں شفافیت کی تلاش مختار احمد علی کیس کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اب اسے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس ایف اے سی ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کو عوامی معاملات اور اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے برسوں تک جدوجہد نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر معلومات کا فعال انکشاف شفافیت کو یقینی بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے ججوں کے ٹیکس ریکارڈ، ان کی ملکیت والی جائیدادوں، ان کے شریک حیات اور بچوں، خاص طور پر ٹی کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔امید کرنے کی اچھی وجوہات ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں شفافیت کے معیارات کو عدالت کے دیگر پہلوؤں پر لاگو کرے گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو پلاٹ اور بلا سود قرضے دینے کے حالیہ معاملے نے تشویش کو جنم دیا ہے۔ شفافیت کے حامی چیف جسٹس عیسیٰ نے ان طریقوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔
سی پی ڈی ائی ایگزیگٹیو ڈائریکٹر مختار احمد
مختار احمد کیس کا فیصلہ شفافیت اور احتساب کی جانب پاکستان کے سفر میں ایک سنگ میل ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق تمام اداروں پر لاگو ہوتا ہے، تاریخی رکاوٹوں کو توڑتا ہے جو منتخب اداروں کو عوامی جانچ پڑتال سے محفوظ رکھتے ہیں۔
زیادہ شفاف پاکستان کی راہ اس طرح کے فیصلوں سے روشن ہوتی ہے، ایک ایسے مستقبل کا وعدہ کرتی ہے جس میں ملکی معاملات جانچ پڑتال کے لئے کھلے ہوں، ور عوام کا اعتماد مضبوط ہو۔ یہ ایک واضح مطالبہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں