ہفتہ، 27 اپریل، 2024

نظام حکومت کی شفافیت اور فعالیت کے لیے انفارمیشن کمیشن فوری طور پرقائم کیا جائے سول سوسائٹی کا مطالبہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بلوچستان میں نظام حکومت کی شفافیت اور فعالیت کے لیے انفارمیشن کمیشن فوری طور پرقائم کیا جائے 
سول سوسائٹی کا مطالبہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                                    تحریر امتیازاحمد

پاکستان فیڈریل یونین اف جرنلیسٹس کے سابق
 صدراورانٹرنیشنل نیوز ایجنسی) (اے ایف پی )کے بیورو چیف شہزادہ ذولفقار نے اپنی راے دیتے ہوئے کہا کہا سوا تین سالوں میں کمیشن کا نہ بنا
انتہائی 
 (شہزادہ ذولفقار)
         افسوس کا مقام ہے اس کوتاہی کی زمہ داری سابق صوبائی حکومتوں پر عائد ہوتی ہے  بیروکریسی  بھی نہیں چاہتی اگر یہ پی اسی ڈی پی بڑھانے کے لیے کمشین  ہوتا تو کب کا بن چکا ہوتا ، عوامی نمائندوں کو عوام کے بنیادی حق  معلومات سے کوئی سرو کار نہیں عوامی نمائندے اور بیروکریسی اپنی جائز ناجائز کاموں کو عوام سے چھپاے رکھنا چائتے ہیں اس معاملے میں ارکین اسمبلی وزرا اور بیروکریسی ایک پلیٹ فارم پر ہیں میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں غیر سرکاری تنظیموں خاص طور پر ایڈ بلوچستان کی ٹیم اورایگزیگٹیو ڈائرئکٹر عادل جہانگیرکو جنہوں نے ایک طویل عرصے سے ارٹی ائی لا بنانے اس پر عمل کرانے اور اب انفارمیشن کمیشن بنانے کے لیے عملی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے عوامی حقوق کے لیے قانون سازی کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے فنڈنگ کرنے والی ملکی اور غیر ملکی این جی اوز کا کردار بھی انتہائی اہم رہاہے  غیر سرکاری تنظیموں میڈیا  تنظیموں اور صحافیوں کو مل کر بلوچستان انفارمیشن کمیشن  قیام کے لیے اواز اٹھانے کی  ضرورت ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیکرٹری اطلاعات حکومت بلوچستان عمران خان نے کہا کہ

معلومات تک رسائی عوام کا بنیادی حق ہےبلوچستان انفارمیشن کمیشن ایک ماہ کے اندر قائم ہوجائے گا
  1.        
                                        سیکرٹری اطلاعات حکومت بلوچستان عمران خان                                                              
    کمیشن کے قیام میں تاخیر ہوئی 
ایکٹ پاس ہونے کےایک سو 20دنوں کے اندر انفارمیشن کمیشن قائم ہونا تھا
مگر ایس اینڈ جی ڈی نے پہلے رولز بنانے کی ہدایت کردی اب رولز بن چکے ہیں 31 مارچ تک چیف کمیشنر اور کمشنرز کے لیے درخواستیں طلب کی گہ تھی اب درخواستیں پراسس ہونے کے بعد ایک ماہ کے اندر کمیشن کا قیام عمل میں اجاے گا۔ تمام محکموں  نے اپنے
 پبلیک انفارمیشن افیسران نوٹیفایڈ کردے ہیں ۔انفارمیشن کمیشن کے لیے دس ملین کے فنڈز کی منظوری کے لیے فناس کو سمری بجوا دی ہے ۔کمشن کے قیام کے بعد ان کی ضروریات اور ہومین ریسورس فراہم کی جاے گئ  بلوچستان میں جلد آر ٹی آئی کمیشن    کا وجود ممکن ہو جائیگا
سیکرٹری نے مزید بتای کہ معلومات تک رسائی ہر شہری کا حق ہے اس سے مضبو ط سماجی نظام کا وجود ممکن ہوتا ہےاور معلومات تک رسائی کے قانون کے ذریعے بنیادی انسانی حقوق کے حصول کو ممکن بنا سکتے ہیں ان انہوں نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے قانون کا عملی طور پر استعمال ہو نے سے لوگوں میں احساس محرومی کا ازالہ ہو جائے گا ،کرپشن کے خاتمےاور احتسابی عمل کے بہتری کے لیے معاون ثابت ہوگا، آ ر ٹی آئی کا قانون تمام محکموں کے شفافیت کےلیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرے گا۔ انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ارٹی ائی لا صوبائی اسمبلی نے 21فروری 2021کو پا س کیا تھا اس کے بعد نومبر 2021 میں میری بطور سیکرٹری اطلاعات تعناتی عمل میں ائی تو میں نے  کے پی کے اور پنجاب انفارمیشن کمیشن کی پیروی کرتے ہوئے کمیشن کے قیام کی سمری22نومبرکو ایس اینڈ گی ڈی بجوائی اس سمری کو وزیر اعلی کے پاس منظوری کے لیے بجوانے کی بجائے عتراز لگا کر واپس کردیا گیاکہ  کیارولز بناے بغیر کمیشن کا قیام کیسے ممکن ہے لہذا پہلے رولز بنائیں جائیں ان کی منظوری لینے کے بعد سمری بجوائی جائے،اس عتراض کے بعد ہم نے دوبارہ کے پی کے اور پنجاب انفارمیشن کمیشنز سے رابطہ کر کے معلومات لی ت وپتہ چلاکہ رولز کمیشن کود بناتا ہے بارحال رولز بنائے گئے اسی دوران میری ٹرانسفر ہوگئی پھر نگران کابینہ میں الیکشن کمیشن کی ہدایات کی وجہ سے کمیشن کا قیام التوا میں چلا گیا،جب میری دوبارہ پوسٹنگ ہوئی تو میں نے کمیشن کے قیام کے کام کو دوبارہ شروع کیاچیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمشن کمشنرز کے لیے اکبارات میں اشتہار شائع کیا گیا اب درخواستیں اکی ہیں پراسس کے بعد منظوری کے لیے سمیری وزیراعلی کو بجوادی جائے گئی امید ہے کہ اب ایک ماہ کے اندر بلوچستان انفارمیشن کمیشن کا قیام عمل میں اجائے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 اسامہ خاور ایڈوکیٹ
   
 اسما خاور نے ڈان نیوز میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے ارٹیکل میں لکھا ہے کہ 
 ' اب کوئی بھی مقدس گائے' نہیں: آر ٹی آئی قانون پر سپریم کورٹ کا فیصلہ صحیح سمت میں ایک قدم کیوں ہے
زیادہ شفاف پاکستان کی راہ اس طرح کے فیصلوں سے ہموار  ہوتی ہے، جس میں ایک ایسے مستقبل کا وعدہ کیا جاتا ہے جس میں ملک کے معاملات جانچ پڑتال کے لئے کھلے ہوں، اور عوام کا اعتماد مضبوط ہو۔


چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ معلومات تک رسائی اب صوابدید نہیں رہی بلکہ اب یہ ہر پاکستانی کا بنیادی حق ہے جو آئین کے آرٹیکل 19 اے کے تحت استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 ایک تاریخی فیصلے میں، جو پاکستان میں شفافیت کے خدوخال کو نئے سرے سے بیان کر سکتا ہے، سماجی تنطیم سی پی ڈی ائی کے مختار احمد علی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف لوگوں کے معلومات تک رسائی کے حق کو برقرار رکھتا ہے بلکہ ان اداروں کو بھی احتساب کے دائرے میں لاتا ہے، جنہیں کبھی جانچ پڑتال کے قابل نہیں سمجھا جاتا تھا۔

 یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان عدلیہ، فوج اور پبلک فنانس کے دائرے میں شفافیت کے لیے ایک تاریخی جدوجہد میں مصروف ہے۔شفافیت کی جنگ
پاکستان تاریخی طور پر مدافعتی اداروں کو زیادہ جوابدہ بنانے کے چیلنج سے نبرد آزما ہے  طاقت ور اداروں کے اندرشفافیت میں اضافے کے حالیہ مطالبات زور پکڑ رہے ہیں، جو ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔
 مختار احمد علی کا کیس کس  میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں عدالت کی جانب سے آرٹیکل 19 اے میں تبدیلی کی صلاحیت کے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ فیصلے میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق صرف مخصوص اداروں تک محدود نہیں ہے بلکہ معزز عدلیہ سمیت تمام عوامی اداروں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ فیصلہ ان تاریخی رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے ختم کرتا ہے جنہوں نے بعض اداروں کو عوامی جانچ پڑتال سے بچایا تھا اور ایک ایسے ملک میں شفافیت کی طرف ایک اہم تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے جہاں طاقت موجود ہے۔بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے مرکزی فیصلے کی حمایت میں ایک اضافی نوٹ لکھا جس میں کہا گیا کہ 'مجھے قانون اور آئین کی واضح تشریح سے اتفاق یا توثیق نہ کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی'۔
 چیف جسٹس کے برعکس جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آر ٹی آئی ایکٹ سپریم کورٹ پر بھی لاگو ہوتا ہے، 'آر ٹی آئی ایکٹ کا سادہ مطالعہ پہلی نظر میں ظاہر کرتا ہے کہ سپریم کورٹ کو 'پبلک باڈیز' کی تعریف سے واضح طور پر خارج نہیں کیا گیا ہے۔ 


سپریم کورٹ کا فیصلہ اس تشریح پر منحصر ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق قانون عوامی اداروں پر لاگو ہوتا ہے جیسا کہ ایکٹ میں بیان کیا گیا ہے ، اور اس تعریف میں سپریم کورٹ شامل نہیں ہے۔

 اگرچہ یہ قانون "وفاقی قانون کے تحت عدالت، ٹریبونل، کمیشن، یا بورڈ" پر لاگو ہوتا ہے، لیکن آئین کے تحت قائم ہونے والی سپریم کورٹ کو وفاقی حکومت کے عوامی ادارے کے طور پر درجہ بندی نہیں کیا گیا ہے. اس طرح، اس قانون کو سپریم کورٹ پر لاگو نہیں سمجھا گیا۔اپیل کے طریقہ کار کی ضرورت
فیصلے میں ایک اہم خامی ان معاملوں میں اپیل کے طریقہ کار کی عدم موجودگی ہے جہاں سپریم کورٹ آرٹیکل 19 اے کے تحت معلومات فراہم کرنے سے انکار کرتی ہے۔ اس سے نمٹنے کے لئے، ایک نقطہ نظر میں سپریم کورٹ رولز، 1980 میں ترمیم کرنا شامل ہوسکتا ہے، تاکہ آر ٹی آئی پر ایک مخصوص سیکشن کو شامل کیا جاسکے۔ اس سیکشن میں شہریوں کے لئے معلومات حاصل کرنے کے طریقہ کار کا خاکہ پیش کرنا چاہئے اور ایسے معاملات کے لئے ایک مضبوط اپیل میکانزم قائم کرنا چاہئے جہاں سپریم کورٹ انفارمیشن تک رسائی سے انکار کرتی ہے۔مزید برآں، شفافیت کے معیار میں مستقل مزاجی کو یقینی بنانے کے لیے، اس فیصلے میں لاگو ہونے والے وہی معیار اور حدود پاکستان کی ہائی کورٹس اور وفاقی شرعی عدالتوں تک بھی لاگو ہونے چاہئیں۔ شفافیت کے اصولوں میں یہ صف بندی زیادہ مربوط اور قابل رسائی عدالتی نظام میں کردار ادا کرے گی۔
 مزید برآں، پاکستان کی عدلیہ میں شفافیت کی تلاش مختار احمد علی کیس کے ساتھ ختم نہیں ہوتی۔ اب اسے سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی طرف رجوع کرنا چاہیے جو ایک ایسا ادارہ ہے جس کے پاس ایف اے سی ہے
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ شہریوں کو عوامی معاملات اور اداروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے برسوں تک جدوجہد نہیں کرنی چاہیے۔ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر معلومات کا فعال انکشاف شفافیت کو یقینی بنانے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اس میں سپریم کورٹ کے ججوں کے ٹیکس ریکارڈ، ان کی ملکیت والی جائیدادوں، ان کے شریک حیات اور بچوں، خاص طور پر ٹی کے بارے میں معلومات شامل ہیں۔امید کرنے کی اچھی وجوہات ہیں کہ سپریم کورٹ اس معاملے میں شفافیت کے معیارات کو عدالت کے دیگر پہلوؤں پر لاگو کرے گا۔ لاہور ہائی کورٹ کے ججوں کو پلاٹ اور بلا سود قرضے دینے کے حالیہ معاملے نے تشویش کو جنم دیا ہے۔ شفافیت کے حامی چیف جسٹس عیسیٰ نے ان طریقوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔

                           سی پی ڈی ائی  ایگزیگٹیو ڈائریکٹر مختار احمد  
 مختار احمد  کیس کا فیصلہ شفافیت اور احتساب کی جانب پاکستان کے سفر میں ایک سنگ میل ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معلومات تک رسائی کا حق تمام اداروں پر لاگو ہوتا ہے، تاریخی رکاوٹوں کو توڑتا ہے جو منتخب اداروں کو عوامی جانچ پڑتال سے محفوظ رکھتے ہیں۔
 زیادہ شفاف پاکستان کی راہ اس طرح کے فیصلوں سے روشن ہوتی ہے، ایک ایسے مستقبل کا وعدہ کرتی ہے جس میں ملکی معاملات جانچ پڑتال کے لئے کھلے ہوں، ور عوام کا اعتماد مضبوط ہو۔ یہ ایک واضح مطالبہ ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 عادل جہانگیر

بلوچستان میں ایف او ائی کو ارٹی ائی لا کی شکل میں منظور کرانے کی طویل جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 
 ایڈ بلوچستان کے ایگزیگٹیو ڈائریکٹرعادل
  عادل جہاگیر نے کہا کہ ہماری ٹیم اپنے ڈونرز کے تعاون سے گزشتہ 9برسوں سے بلوچستان کے عوام کو معلومات تک رسائی کے ائینی حق کی راہ ہموار کرنے  کے لیےصوبائی دارلحکومت سے لے کر  دوردراز اضلاع تک اگاہی پہنچانے کی عملی جدوجہد کررہی ہے  یہ جدوجہد  سے جاری ہے

 وزیر اعلی بلوچستان کی مشیر براے محکمہ ترقی نسواں ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی ارٹی ائی لا اگاہی سیشن کی صدارت کرہی ہیں

جب وفاقFoi  انون صرف کے ایک ارڈینس کو بلوچستان میں ہو بہونافظ کردیا گیا تھا دیگر تینووں صوبوں نے 18ویں ترمیم کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوے اپنے ارٹی ائی لاز بنا لیے تھے تب ہم نے سول سوسائٹی کے سرکردہ رہنماوں صحافیوں کے ساتھ مل کر اس طویل جدوجہد کا اغاز کیا تھا 

کے پی کے پنجاب سندھ کے ارٹی ائی لاز کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم نے بلوچستان ارٹی ائی لا کا مسودہ قانون بنوا کرحکومت کو پیش کیا کئی برسوں کے دباو کے بعد منظور کروانے کی کوشس کی لاتعداد اگاہی اور اورٹیشن سیشن کے بعد ہم 21فروری 2021 میں ارٹی ائی لا بلوچستان اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب توہوگےعملی طور پر تو ہماری جدوجہد کا اخری مرحلہ قانون پاس کروانا تھا .

مگر بدقسمتی ہے کہ 120 دنوں کی ائینی مدت کے اندر جس انفارمیشن کمیشن نے قائم ہو کر عوام کو معلومات کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنانے کا اغاز کرنا تھا وہ کمشن اج سو تین سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بن سکا۔انفارمیشن کمیشن میں تاخیر کو دیکھتے ہوے ہم نے اپنی جدوجہد کو مذید تیز کیا اور ارکین اسمبلی بیروکرسی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ کبھی اگاہی واک کبھی اورٹیشن سیشن اور کبھی پوسٹرز پینٹنگ شاٹ فلمز  کے مقابے جاری رکھے ہوے ہیں اب جب ا نفارمیشن کمیشن کے


متحرک سماجی شخصیت شازمہ ملک اظہار خیال کرتے ہوئے

  عادل جہاگیر نے کہا کہ ہماری ٹیم اپنے ڈونرز کے تعاون سے گزشتہ 9برسوں سے

بلوچستان کے عوام کو معلومات تک رسائی کے ائینی حق کی راہ ہموار کرنے  کے لیےصوبائی دارلحکومت سے لے کر  دوردراز اضلاع تک اگاہی پہنچانے کی عملی جدوجہد کررہی ہے  یہ جدوجہد  سے جاری ہے جب وفاقFoi  قانون صرف کے ایک ارڈینس کو بلوچستان میں ہو بہو نافظ کردی اگیا تھا دیگر تینووں صوبوں نے 18ویں ترمیم کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوے اپنے ارٹی ائی لاز بنا لیے تھے تب ہم نے سول سوسائٹی کے سرکردہ رہنماوں صحافیوں کے ساتھ مل کر اس طویل جدوجہد کا اغاز کیا تھا کے پی کے پنجاب سندھ کے ارٹی ائی لاز کا مشاہدہ کرنے کے بعد ہم نے بلوچستان ارٹی ائی لا کا مسودہ قانون بنوا کرحکومت کو پیش کیا کئی برسوں کے دباو کے بعد منظور کروانے کی کوشس کی لاتعداد اگاہی اور اورٹیشن سیشن کے بعد ہم 21فروری 2021 میں ارٹی ائی لا بلوچستان اسمبلی سے منظور کروانے میں کامیاب تو  ہوگے عملی طور پر تو ہماری جدوجہد کا اخری مرحلہ قانون پاس کروانا تھا .مگر بدقسمتی ہے کہ 120 دنوں کی ائینی مدت کے اندر جس انفارمیشن کمیشن نے قائم ہو کر عوام کو معلومات کی فراہمی کے عمل کو یقینی بنانے کا اغاز کرنا تھا وہ کمشن اج سو تین سال گزرنے کے بعد بھی نہیں بن سکا۔

ایڈ بلوچستان کے صدر ڈاکٹر اسحاق بلوچ اور اگاہی سیمنار کے شرکا کا مشیر وزیر اعلی ڈاکٹر ربابہ بلیدی کے ہمراہ گروپ فوٹو 

انفارمیشن کمیشن میں تاخیر کو دیکھتے ہوے ہم نے اپنی جدوجہد کو مذید تیز کیا اور ارکین اسمبلی بیروکرسی سول سوسائٹی کی تنظیموں کے ساتھ کبھی اگاہی واک کبھی اورٹیشن سیشن اور کبھی پوسٹرز پینٹنگ شاٹ فلمز  کے مقابے جاری رکھے ہوے ہیں اب جب ا نفارمیشن کمیشن کے لیے درخواستیں طلب کرلی گی ہیں امید ہے کہ چیف انفارمیشن کمشنر اور تین انفارمیشن کمشنرز قانون میں دیے گے فریم ورک اور میرٹ کے مطابق تعنات ہوں گئے اب ہم کمشین بنے کے عمل کو قانونی فریم ورک کے اندر رلھنے کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرہے ہیں اب جب کمشن ایک ماہ کے اندر بننے جارہا ہے تو ہم نے دوبارہ متعلقہ اداروں کے افسروں کو ارٹی ائی کی اہمیت اور طریقہ کار  کے بارے میں اگاہی کی فراہمی دوبارہ شروع کردی  ہے۔میں بطور ایگزیگٹیو ڈائریکٹر ایڈ بلوچستان کے ہماری عملی جدوجہد میں ساتھ دینے والے دوستوں تنظیموں ارکین اسمبلی  سرکاری و غیرسرکاری افیسروں کا دلی طور پر شکرگزار ہوں پر 

(این ای ڈی)
(این ای ایف او ڈی) 
کے تعان پر دلی طور پر مشکور ہوں 
اپنی ٹیم کی کارکردگی کو خراج تیحسین پیشن کرتا ہوں ۔                  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔           

  متحرک ماہرآئی ار ٹی  محمد اصف نے کہا کہ 

                                                  محمد اصف
 بلوچستان آرٹی ائی لا بنے ہوے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزچکا ہے اس کے
 باوجود انفارمیشن کمیشن قائم نہیں ہوسکا حکومت کی طرف سے اس عوامی حق کی فراہمی میں کوتاہی دیکھائی دیتی ہے طویل عرصے سے یہی سنایا جارہا ہے کہ کمیشن کو جلد فعال کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں محکمہ اطاعات کے زمہ داروں سے ہماری میٹینگ ہوتی رہی ہیں ۔سول سوسائٹی نے مختلف فورم پر اواز بھی بلند کی ہے  مگر سرکار کی جانب سے کوئی خاطر خواہ عمل دیکھنے میں نہیں ایا ۔ بیروکرسی اور سیاسی عمائدین کا دباو ہے کہ کمیشن فعال نہ ہو دراصل  یہ لوگ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ٹرنسپرنسی اور شفافیت کویقینی بنانے کے لیے حکومتی اداروں کو عوام کے سامنے جواب دے بنایا جا سکے۔  یہ حق ہمیں ائین پاکستان دے رہا ہے باحصیت ٹیکس پیر  شہریوں کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ اپ پبلیک فنڈز استعمال کرنے والے ہرادارے سے جواب طلب کرسکتے ہیں 

حکومتی مشنری عوام کے ٹیکسوں سے حاصل فنڈز سے ہی چل رہی ہے۔لہذا مستثنی معلومات کو چھوڑ کر تمام معلومات سادہ کاغذ پر لکھی گی درخواست کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں ۔میں عام شہری کے حق کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والوں اور انفارمیشن کمیشن   کے قیام میں تاخیر کرنے والوں کی مذمت کرتا ہوں نئی حکومت کے وزہراعلی سے گزارش ہے کہ انفارمیشن کمیشن میں تاخیر کی وجوہات کو دور کرتے ہوے عوام کا یہ حق فوری طور پر دیا جاے۔میں نے  ایڈ بلوچستان سمت دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر ارٹی ائی لا کی اہمیت کو صحافیوں کی ٹرینگ کے زریعے عوام تک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔محکمہ اطلاعات سمت دیگر سرکاری اداروں کے زمہ داروں کو اورینس دیتے ارہے
ہیں
  

ٹرینگ سیشن کے شرکا کا گروپ فوٹو



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot