سامراج کی تاریخ میں ڈاکو بتاے جانے والے دھرتی کے رکھوالے اور ہیروز ہیں
Born | 1776 |
---|---|
Died | 21 September 1857 (aged 80–81) |
Cause of death | Killed in Action |
Monuments | Tomb of Rai Ahmad Khan Kharal |
Other names | Nawab of Jhamra |
Known for | Folk Hero |
Parents |
|
ھوج کی اور ڈیڑھ سو سال پرانی کہانی کو زندہ کر دیا۔
صباح مسعود ( پنجاب لوک سجاگ )
اے ڈی اعجاز ہڑپہ کے سکول ٹیچر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال اور توانائی یہ ثابت کرنے پر صرف کیے کہ انگریزوں کی لکھی تاریخ کے ڈاکو اور غدار دراصل ہمارے سورما اور ہیرو ہیں۔وسائل کی کمی کو انہوں نے آڑے نہ آنے دیا اور گاؤں گاؤں پیدل گھوم کر سینہ بہ سینہ چلنے والی ہماری زبانی تاریخ کے انمول موتی اکٹھے کیے۔ انکی لکھی ایک کتاب 'کال بلیندی' آج پنجاب یونیورسٹی، پاکستان اور انبالہ یونیورسٹی، بھارت کے کئی نصابوں کا حصہ ہے۔سجاگ کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے بتایا "آٹھویں کلاس کی ایک نصابی کتاب میں 1857 کی جنگ آزادی کا ذکر تھا۔ اس کتاب میں ساہیوال کے علاقے سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو "غدار" بتایا جاتا تھا لیکن جب علاقے کے مقامی
لوگوں کی زبانی ان کے متعلق سننے کو ملتا تو وہ انہیں مقامی ہیرو قرار دیتے۔"لوگ بتاتے کہ جنگ آزادی کے ان متوالوں نے جاگیرداروں اور انگریزوں کے خلاف یہاں کے مقامی لوگوں کی حفاظت کی تھی۔ اس ذہنی خلفشار اور حقائق کے تضاد نے مجھے مجبور کیا کہ لوگوں کے سینوں میں محفوظ احمد خاں کھرل کی تاریخ لکھوں جسے جدید لغت میں زبانی تاریخ (Oral History) کہا جاتا ہے۔"اے ڈی اعجاز کا پورا نام اللہ دتہ اعجاز ہے۔ وہ میاں محمد رمضان، جوکہ دیہاڑی دار مزدور تھے، کے ہاں تین جولائی 1936ء کو پیدا ہوئے۔ اے ڈی اعجاز کے بقول جب انہوں نے 1964ء میں احمد خاں کھرل اور جنگ آزادی کے واقعات کے متعلق مواد اکٹھا کرنا شروع کیا تو اس وقت جنگ آزادی کو گزرے سو برس سے زائد وقت گزر چکا تھا اور ان واقعات کا کوئی بھی چشم دید گواہ موجود نہ تھا اور نہ ہی تحریری شکل میں کوئی مواد موجود تھا۔ جو سرکاری ریکارڈ موجود تھا، اس میں یہاں کے سورماؤں کو غدار کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔انگریز چلے گئے لیکن آج بھی سرکاری ریکارڈ میں باہر سے آئے حملہ آوروں کے خلاف لڑنے والوں کو غدار بتایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساہیوال میں لارڈ برکلے کی یادگار تو موجود ہے لیکن ساہیوال کے سپوت اور شہید احمد خاں کھرل کی کوئی نشانی موجود نہیں۔لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ان وقعات کو اکٹھا کرنے کیلئے مصنف نے پیدل نیلی بار، ساندل بار، کِرانہ بار اور گنجی بار کے گاؤں گاؤں، نگری نگری کا چکر لگایا اور خاص کر ایسے دیہاتوں کا رخ کیا جہاں مقامی برادریاں کھرل، کاٹھیہ، مردانہ، فتیانہ، سگلہ اور ویہنیوال آباد تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں جنگ کے متعلق جو روایتیں اور ڈھولے ملے ان میں اور سرکاری ریکارڈ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔"میں نے ایسے لوگوں کو ڈھونڈا جن کے پاس کوئی معلومات محفوظ تھی۔ لوگ مجھے ڈھولے اور لوک روایات سناتے اور میں انہیں اپنے پاس لکھ لیتا۔ اکٹھے کیے گئے مواد کا بڑا ذخیرہ جانور چرانے والوں چھیڑوں، میراثیوں اور ڈھولچیوں کی زبانی ملا۔ جس سے جو مل سکا اسے غنیمت سمجھا۔ انہی لوگوں سے دیگر ایسے لوگوں کا پتہ چل جاتا جن سے اس بارے میں مزید کچھ مل سکتا تھا" اے ڈی اعجاز نے بتایاحیرانی کی بات یہ ہے کہ اے ڈی اعجاز کو شہداء جنگ آزادی کے وارثوں سے کچھ میسر نہ آیا جبکہ اس معاملے میں وہ سب سے زیادہ معاون ثابت ہو سکتے تھے۔ ان وارثوں کو اپنے آباؤاجداد کی تاریخ کو محفوظ کرنے اور لوگوں کو اس سے آشنا کروانے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اے ڈی اعجاز کے بقول ان بہادروں کی اولادوں میں سے کسی نے انکے خط کا جواب تک دینا گوارہ نہ کیا۔سال 1964 میں شروع ہونیوالی اس کھوج کے نتیجے میں اے ڈی اعجاز کو جو مواد ملا اس میں مقامی لوگوں نے اپنی طرف سے کافی کچھ شامل کر لیا تھا کیونکہ گذشتہ سو سال میں یہ مواد اصل لوک شاعروں سے تقریبا سولہویں جگہ منتقل ہو چکا تھا۔ اس اکٹھے ہوئے مواد کی اچھی طرح چھان بین کی گئی جس کے لیے لوک روایات کا سہارہ لیا گیا۔ اس محنت کے نتیجے میں مصنف نے دو کتابیں مرتب کیں۔پہلی کتاب جو کہ ضلع ساہیوال میں مشہور لوک گیتوں اور عشقیہ ڈھولوں پر مشتمل تھی "چانجے چھتے" کے نام سے سال 1973 میں شائع ہوئی۔دوسری کتاب جس میں اے ڈی اعجاز نے اہل ساہیوال کو اس کے مجاہدوں اور اس دھرتی پر جان نچھاور کرنے والوں سے متعارف کروایا "کال بلیندی" کے نام سے سال 1983 میں پہلی بار شائع ہوئی۔" شہداء جنگ آزادی کے وارثین کو پتا تھا کہ ان کے خاندان کی تاریخ کن سینوں میں محفوظ ہے لیکن ان کے عدم تعاون کی صورت میں جتنا ممکن تھا، میں نے اتنا اکٹھا کیا۔ بس سمجھ لیں کہ رڑھدی جاؤندی دا پوچھل پھدیا" اے ڈی اعجاز1977 میں جب اے ڈی اعجاز کی کتاب کال بلیندی چھپنے کیلئے پنجابی ادبی بورڈ کے پاس گئی تو چئیرمین ادبی بورڈ اور مصنف کے درمیان کتاب کے مختلف حصوں پر اختلاف پیدا ہو گیا۔ مصنف کو کہا گیا کہ اپنی کتاب کے باب "جنگ آزادی دے غدار" کا عنوان بدل دیا جائے۔ کافی تکرار اور مباحثے کے بعد مصنف نے اس باب کا نام تبدیل کر کے "انگریزاں دے بانہہ بیلی" رکھ دیا۔ضیاء الحق کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے کتاب کے سرورق پر استعمال کیے گئے تین رنگوں پر اعتراض اٹھا کر، کہ ان میں پاکستان پیپلز پارٹی کے جھنڈے کی جھلک دکھائی دیتی ہے، کتاب کی پرنٹنگ روک دی۔ جس پر بادل نخواستہ رنگوں میں تبدیلی کرنی پڑی۔ 1983 میں کال بلیندی کے شائع ہونے سے لیکر 2006 تک اس کتاب کے چار ایڈیشن آ چکے ہیں۔اللہ دتہ اعجاز عرف اے ڈی اعجاز ساری عمر بطور سکول ٹیچر کے خدمات انجام دیتے رہے۔ ہڑپہ کے زیادہ تر جوان آپ کے شاگرد ہونے کے باعث آپکو ماسٹر جی کہہ کر بلاتے ہیں۔ اے ڈی اعجاز کی تصانیف کو یہ اعزاز حاصل کے یہ پنجاب یونیورسٹی، لاہور، پاکستان اور انبالہ یونیورسٹی، ہریانہ، انڈیا میں شعبہ پنجابی کے کورس کا حصہ ہیں۔ اے ڈی اعجاز کو اپنی اس کاوش پر وزیر اعظم
پاکستان کی جانب سے 2008ء میں ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا جا چکا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں