کردار اور خوداری ہمارے معاشرے سے ناپائید ہوگئی ہے
مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا اور غصے میں بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔
سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن ۔ پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنا سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ یہ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔
دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھار پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہوا کہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزرا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔ اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک اٹھا۔
رپورٹر سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہو۔ رپورٹر ہنسنے لگا کہ ایڈیٹر صاحب ۔ اس بوڑھے میں کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی بھی اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔ برتن بھی خود دھوتا ہے۔ معمولی سے گھر میں جھاڑ پوچھ بھی خود کرتا ہے۔ اس کو کس نے جاننا ہے۔
ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے رپورٹر کو کہا کہ یہ شخص ہندوستان کا دومرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے۔ رپورٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔ خیر اگلے دن اخبار چھپا تو قیامت آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ معمولی سا بوڑھا ہندوستان کا دوبار کا وزیراعظم رہ چکا ہے۔ اس خبر کے چھپنے پر وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال کس مفلسی میں سانس لے رہا ہے۔ خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد‘ ریاست کا وزیراعلیٰ ‘چیف سیکریٹری اور کئی وزیر اس محلے میں پہنچ گئے۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دیتی ہے۔
خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑ دیں۔ مگر گلزاری لال نے سختی سے انکار کر دیا اور بولا کہ کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہیں اسی کوارٹر میں رہے گا۔ گلزاری لال کے چند رشتہ داروں نے منت سماجت کر کے بہرحال اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ پانچ سو روپے وظیفہ قبول کر لے۔ سابقہ وزیراعظم نے حد درجہ مشکل کے بعد یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ کھانا پینا شروع ہو گیا۔
مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار پورے ملک کا وزیراعظم رہ چکا ھے۔ تو گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیئے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ھے۔ بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ھی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال زندہ رہا اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتا رہا۔
گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کا انسان تھا۔ سیالکوٹ میں جولائی 1898 میں پیدا ہوا۔ اور جنوری 1998 میں احمد آباد میں فوت ہو گیا۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہا۔ اور 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہا۔ بنیادی طور پر ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دراصل وہ اقتصادیات کا استاد تھا۔
ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا۔ سیاست میں آیا تو یونین منسٹر وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن بھی رہا۔ متعدد بار لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ گلزاری لال کافلسفہ تھا کہ زندگی کو بہت سادہ گزارنا چاہیئے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ھی اصل امتحان ہے۔ویسےجو گلزاری لال سادگی میں رہنے کی جو مثال قائم کر گیا اس کے لیئے حد درجہ مضبوط کردار کی ضرورت ہے۔
99 سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت اس کے پاس کسی قسم کی جائیداد کوئی بینک بیلنس اور کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔ بس ایک عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں سیاست میں حد درجہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بارہا گلزاری لال جیسے کردار مل ھی جاتے ہیں ۔انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست دان موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں۔
اس سطح کی سادگی کی عملی مثال پاکستان میں وزیرِآعظم معران محمد خان ہی تھے جو لاھور میں کرایہ کے مکان میں رہتے تھے انکی بیگم رکشہ - ٹانگوں میں سفر کرتی تھیں مگر انکے علاوہ ہمارے ہاں اور کوئی مثال نہیں ملتی (رہنمائی)
بیگم اویس اقبال
لائل ہیومن سائنس سے پہلے پنہ سے ماخوذ.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں