ذہنی صحت کے بڑھتے ہوئے بحران میں کئی عوامل کارفرما ہیں۔
سیکرٹری صحت
سیکرٹری صحت بلوچستان عبداللہ خان نے بلوچستان انسٹی ٹیوٹ آف ساٸیکاٹری اینڈ بیہوریئل سائنسزکے او پی ڈی کمپلیکس کا افتتاح کردیا
یہ پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کی او پی ڈی کمپلیکس میں ضعیف العمر افراد ، بچوں اور نو عمر افراد کی نفسیات ، منشیات کے عادی افراد مریضوں ، ذہنی تناو کے علاج ، خودکشی سے بچاو اور نفسیاتی صدمے کے علاج کے لیے ماہر ڈاکٹرز کی نگرانی میں او پی ڈی کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے
اس موقع پر ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر فاروق ہوت ، پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول ، پروفیسر ڈاکٹر خان بابر ، پروفیسر ڈاکٹر صادق اچکزٸی ، ایڈیشنل سیکرٹری صحت عتیق اللہ خان ، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر زرمینہ ترین ، پروفیسر ڈاکٹر امجد ، فارماسسٹ حیات خان اور دیگر معاونین نے شرکت کی
چیف ایگزیکیٹو بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ساٸیکاٹری اینڈ بیہوریل ساٸنسز پروفیسر ڈاکٹر حضرت علی نے سیکرٹری صحت کو بریفنگ دیتے ہوے بتایا کہ بلوچستان انسٹیٹیوٹ آف ساٸیکاٹری اینڈ بیہوریل ساٸنسز میں ساٸیکاٹری کے 12 ہزار سے زاٸد مریضوں کا علاج کیا
اوپی ڈی میں ای ای جی ، اسٹریس کے علاوہ نفسیاتی سماجی مساٸل کی کونسلنگ XRay ، لیبارٹری کی سہولیات موجود ہیں
ملک میں ذہنی صحت کے بڑھتے ہوئے چیلنج سے نمٹنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔
ملک کی تقریباً 24 فیصد آبادی کو ذہنی صحت کے مختلف مسائل کا سامنا ہے اور 60 فیصد کالج اور یونیورسٹی کے طلباء ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
اس صورتحال پر حکومت ، طبی ماہرین ، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور میڈیا کی فوری توجہ کی ضرورت ہے۔
سماجی و اقتصادی تحفظات ، غربت ، معیاری صحت کی دیکھ بھال کی خدمات تک محدود رسائی ، سیاسی بدامنی اور قدرتی آفات کے نتیجے میں مسلسل صدمے نے اجتماعی طور پر ایک ایسے ماحول کو فروغ دیا ہے جو عوام کے درمیان ذہنی صحت کے چیلنجز کو بڑھاتا ہے۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کثیر جہتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔
پاکستان میں ذہنی صحت کے پیشہ ور افراد کی انتہائی کمی کی وجہ سے ذہنی امراض میں مبتلا افراد جو متعلقہ ماہرین تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے وہ اپنی ذاتی، سماجی اور پیشہ ورانہ صلاحیت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں
سب سے پہلے، قومی اور مقامی دونوں سطحوں پر ذہنی صحت سے متعلق آگاہی مہم کو فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے۔
دماغی صحت کے مختلف امراض ، ان کی علامات اور بروقت پیشہ ورانہ مدد حاصل کرنے کی اہمیت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنا ان مسائل کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
تعلیمی اداروں کے نصاب میں ذہنی صحت کی تعلیم کو ضم کرنے سے نوجوان نسل میں ہمدردی اور افہام و تفہیم کے کلچر کو فروغ ملے گا، وہ اپنے اور دوسروں میں ذہنی پریشانی کی علامات کو پہچاننے کے قابل بنائے گا اور ذہنی صحت کے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے والوں کے لیے ایک معاون ماحول کو فروغ دے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں