ہفتہ، 3 فروری، 2024

انجان خوف میں مبتلا؛ صحافت

  انجان خوف میں مبتلا؛ صحافت

_____                          __تحریر: مقدس زہری

 

_______

مجھے جامعہ بلوچستان کے شعبہ صحافت میں داخلہ لئیے ابھی ایک سال مکمل ہونے کو ہے اور میں اس دن کی بڑے شدت سے منتظر ہوں جس دن ایک انتہائی پروقار تقریب میں صحافت کی ڈگری کے ساتھ اپنی یونیورسٹی کے باہر گزرے لمحات پر اظہارِ خیال کروں گی یہ دن میرے خوابوں کی تکمیل کی ایک جھلک ہوگا جس سے میں اپنے مستقبل کو دیکھوں گی اورشعبہ  صحافت  میں مزید آگے بڑھنے کیلے  نئی امید اور جذبے کے ساتھ اگلے سفر کا اغا ز کروں گی یقیناً وہ دن میرے لئیے حوصلہ افزا دن ہوگا نئ امید اور نئ تاریخ کے ساتھ پھر سے ایک سفر کا آغاز ہوگا وہ سفر کہ جس کی منزل میرینظروں سے ہٹتی نہیں وہ خواب کی طرح میرے  ذہین اور جسم وجان کو اپنے گیرے  میں  لیے ہوئی ہے  میں اس خواب کی تعبیرکی تلاش میں سرگرداں ہوں مجھے پہلے دن کی کلاس کے بعد جیسے شعوری سطح پر صحافت کو دیکھنے لگی تو مجھے اندازہ ہوا کہ ہم کسی بے نشان رستے کے مسافر بننے جارہے ہیں اس لئیے کہ خطے میں  صحافت کے حالات و رجحانات اب تسلی بخش نہیں رہے اب صحافت۔کے پیرہن میں ضعیف روایتیں لپٹی ہوئی ہیں انہیں شاید اکیسویں صدی کے تقاضوں میں ڈھالنے کیلے مذید وقت درکار ہوگا اور اگر یہ اپنے اکیسویں صدی کے نئے پیراڈئیم کے اصولوں میں ڈھل جائے تو صحافت  کا شعبہ دنیا کے انتہائی مثبت ترین شعبوں میں سے ایک ہوگا صرف اتنا ہی نہیں بلکہ صحافت عوامی و ریاستی سطح پر امیدوں کی کرن  ثابت ہوگی یہی وجہ ہے کہ عالمی قوتوں نے صحافت کو اپنے ڈگر پر چلنے کے بجائے اسے مخصوص و پچنیدہ راستوں پر ڈال دیا  ہے جس سے صحافت کی وہ شکل دکھائی دیتی ہے جیسے بغیر روح کے جسم پر چسپاں کی گئی ہو  دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جو جزبات و کیفیات کو سمجھنے کا احساس نہ رکھتی ہو لیکن پھر بھی میں پرامید ہوں ایک ایسے سورج کے طلوع ہونے کی جو صحافتی شعبے کوہر سو اجالا کرنے کے ساتھ ساتھ  وہ مقام دلائے گا جس کی حقیقی مانوں میں اج ضرورت ہے  

وہ مقام خوبصورت جزبات کے پیرہن میں چھپے ڈرخوف کا خاتمہ ہے کیونکہ ڈر سے بڑا کوئی وائرس نہیں اور ہمت سے بڑی کوئی ویکسین نہیں اور یہ ویکسین میڈیا کے پاس ہے جو عام عوام تک غیرت و شجاعت کی ویکسین تقسیم کرتا ہے جس معاشرے میں خوف کے بادل چھائے رہیں وہاں کوئی بھی شعبہ اپنے حقیقی اعتبار سے عوام کے عتماد پر پورا نہیں اتر سکتا اس لئیے خوف کے خاتمے کے بعد پرسکون فضاء ہی انسانی زندگی کیلے اہم ترین و موزوں ہے  میں نے اپنے پچھلے کالم میں ایک وضاحت کی تھی کہ صحافت  کن خرافات کا شکار ہے میں نے شعبہ صحافت کے یک طرفہ جھکاؤکا ذکر کیا تھا کہ اگر صحافت  ایسے ہی چلتی رہی تو پھر اس شعبے کا نام بدلنا ہوگا لیکن میرا آج کا موضوع قدرے مختلف ہے کہ صحافت ڈر کے خاتمے کے بجائے شعبہ صحافت خود ایک انجان خوف میں مبتلا دکھائی دیتا ہے اور کسی حد تک تو مجھے یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ صحافت بھی اب اس معاشرے میں ڈر تقسیم کررہی ہے  کیونکہ  

 دنیا کا سب سے بڑا کاروبار ڈر ہے  ۔اسے  ایک عرصہ سے ریاستیں بھی بیچتی ا  رہی ہیں۔ حکمران بھی اور راہنما بھی۔ اب یہی ڈر کارپوریشنز بیچ رہی ہیں۔ جراثیم کا ڈر، انفیکشن کا ڈر، بیماریوں کا ڈر اور موت کا ڈر وغیرہ دراصل ڈر و خوف بیچ کر پھر اپنے ہی طرز کا آمن بانٹ کر معاشرے کی ذہنی سطح کو مخصوص تربیتی عمل سے گزار کر  صرف چند لوگوں کے ایجنڈوں کو امن کا داعی بناکر پیش کیا جانے لگا ہے جن اصولوں کی بنیاد پر صحافت کھڑی ہے اب تو وہ تذبذب کا شکار ہوکر رہے گئے ہیں اور انہی ناتجربہ کار صحافیوں کی وجہ سے ان سے پوچھیں آپ کہ یہ کیمرے کی آنکھ صرف۔کسی۔مظلوم و لاچار کی چوری پر ہی نظر کیوں رکھتی ہے ؟ ان سے پوچھیں کہ آپ کا لاؤڈ پر غصہ و بلڈپریشر صرف غریبوں پر ہائی کیوں ہوجاتے ہیں ؟  کیوں زرد صحافت کا لقب دیا جاتا ہے ؟ کیوں بقاؤ مال کی طرح صحافیوں کی صحافت بن گئ ہے ؟ ایسے جیسے  خطرناک مجرم عبوری ضمانت پر رہا ہوا ہو

 لیکن میرے نزدیک میڈیا سب کچھ ہے یہاں تک میں صحافت کو اپنی نفسیاتی سطح پر جانچنے لگی ہوں اور میرا یہ ماننا ہے کہ میڈیا انسانی زندگی کیلے بہت اہم ہے خواہ جس صورت میں بھی ہو کیونکہ  مجھے اس میڈیا سے عامر لیاقت کی موت کبھی نہیں بھولتی اور نہ ہی اس لڑکی کی داستاں جسے میڈیا نے ایک نئ زندگی عطا کی ہو میں اکثر خود سے سوال کرتی ہوں کہ مقدس میڈیا تو بہت عجیب ہے یہ چاہے تو آپ کے سارے غموں کا بوجھ اٹھا لے اور گر اس سے نہ بنتی ہو تو یہ دنیا بھر کا بوجھ تیرے کندھوں میں ڈال دے میں کیمرہ لئیے جب کسی رکارڈنگ کیلے نکلتی ہوں تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ میڈیا کتنا عجیب ہے اور کئ بار میں میڈیا سے ہمکلام ہوکر پوچھتی ہوں کہ تم بہت عجیب ہو  تم خوشی کے آنسوؤں کو کسی کی یاد میں سوگ کے آنسوؤں میں تبدیل کرنے اور غم کے آنسوؤں کو خوشی کی آنسوؤں میں بدلنے کا۔ہنر رکھتے ہو تم کتنے عجیب ہو ایسے کیسے کرتے ہو کسے تم کسی بھی زندہ دل انسان کو خودکشی پر اُکسا دیتے ہو کہ کوئی ہنستا ہوا شخص زندگی سے بیزار ہوجاتا ہے محبت بھرے دل کو زندگی سے نفرت کرنے پر مجبور کردیتے  ہو اُسے موت دلکش لگنے لگتی ہے۔ لیکن اُسکے بلکل برعکس تم کسی ایسے شخص کو جو زندگی سے تھک چُکا ہو جسے ہر سانس کے ساتھ ایسا محسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ قیامت برپا ہو چُکی ہے  جو بس یہ سمجھنے لگ جائے کہ اب موت برحق ہے تُم ایسے کسی شخص کو چُپکے سے موت سے دُور لیجاتے ہو اتنا دور کے کچھ ہی لمحوں کے بعد وہ تمہارے ساتھ زندگی  جینے لگتا ہے خوش رہنے لگتا ہے زندگی پھر سے جینے لگتا ہے سچ میں تم بہت عجیب ہو

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot