جمعہ، 2 فروری، 2024

بچے کی پیدائش کے بعد وزن کم کرنے کا دباؤ: ’ہر عورت کے جسم اور صحت یابی کی رفتار میں فرق ہوتا ہے‘

 بی بی سی کے شکریے کے ساتھ یہ رپورٹ شایع کی جارہی ہے 

بچے کی پیدائش کے بعد وزن کم کرنے کا دباؤ: ’ہر عورت کے جسم اور صحت یابی کی رفتار میں فرق ہوتا ہے‘

اب جلد ہی پرانی شکل میں واپس آجاؤ۔ جیسے پہلے تھی ویسی ہی بن جاؤ۔‘ یہ فقرے بہت سی خواتین کو ڈیلیوری کے بعد کئی بار سننے پڑتے ہیں۔ حمل کے دوران اور اور پیدائش کے بعد عورت کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں آتی ہیں۔ چاہے وہ جسمانی ہوں یا ذہنی۔

2012 میں پہلی بیٹی کی پیدائش کے فوراً بعد رشتہ داروں نے شریا سنگھ (فرضی نام) سے کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’زیادہ مت کھاؤ، تمہارا وزن بڑھ جائے گا۔‘

بچے کی پیدائش کے بعد ان کا وزن ان کے حمل سے پہلے کے وزن سے 25 کلو زیادہ تھا۔

شریا دو بچوں کی ماں ہیں۔ ان کی پہلی بیٹی 2012 میں اور دوسری بیٹی 2021 میں پیدا ہوئی۔ دونوں کی ڈیلیوری نارمل تھی۔

جسمانی اور ذہنی مسائل کا سامنا

لیکن اگر ڈلیوری کے بعد عورت کو یہ تمام مسائل نہ ہوں تب بھی حمل کے دوران اور بعد میں جسم میں بہت سی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، آپ بہت سی ہارمونل تبدیلیوں سے گزرتے ہیں جو آپ کا جسم چربی کے ذخائر کو برقرار رکھنے کے لیے کرتا ہے۔

آپ کے پیلوک فلور میں کھچاؤ ہوتا ہے، دودھ پلانے والی خواتین کے جسم سے غذائی اجزا دودھ کے ذریعے بچے تک پہنچتے ہیں۔ ان تمام باتوں کا مطلب ہے کہ کسی بھی خاتون کو ڈیلیوری کے بعد مکمل طور پر صحت مند ہونے میں وقت لگتا ہے۔

بی بی سی کی نامہ نگار پائل بھویان سے بات کرتے ہوئے دلی سے ملحقہ نوئیڈا کے مدر ہڈ ہسپتال کی ماہر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر کرنیکا تیواری کہتی ہیں کہ حمل کے دوران اور ڈلیوری کے بعد بہت سے مسائل ہوتے ہیں جن کا سامنا بہت سی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’حمل کے دوران، بڑھتے ہوئے جنین کی جگہ بنانے کے لیے مثانے پر دباؤ پڑتا ہے۔ پیشاب کا مثانہ بچہ دانی کے سامنے ہوتا ہے اور آنتیں اس کے پیچھے ہوتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں جب مثانے پر مزید دباؤ پڑتا ہے تو پیشاب پر قابو نہیں رہتا اور بعض اوقات بواسیر بھی ہو سکتی ہے۔

’اس کے ساتھ ہی جب بچہ دانی کے پیچھے آنتوں پر دباؤ ہو تو یا تو تیزابیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے یا پھر قبض کی شکایت ہو سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر کرنیکا تیواری کا مزید کہنا ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد بچہ دانی کو اپنے نارمل سائز میں واپس آنے میں چھ سے آٹھ ہفتے لگتے ہیں۔ اس دوران بعض اوقات پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے۔ بہت سی خواتین میں توانائی بہت کم ہوتی ہے اور وہ بہت جلد تھکاوٹ محسوس کرنے لگتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ حمل کے دوران جسم میں ہڈیوں کی پوزیشن بدل جاتی ہے۔ ڈیلیوری کے بعد ہڈیاں آہستہ آہستہ اپنی جگہ پر آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کی وجہ سے بہت سی خواتین کمر درد کا شکار بھی ہوتی ہیں۔ بہت سے معاملات میں، یہ مسئلہ زندگی بھر رہ سکتا ہے۔

حمل سے پہلے جسمانی دباؤ

بی بی سی کی نامہ نگار پائل بھویان سے بات کرتے ہوئے، فورٹس ہارٹ انسٹی ٹیوٹ، دہلی کی سینیئر کلینیکل اینڈ چائلڈ سائیکالوجسٹ ڈاکٹر بھاونا برمی کہتی ہیں کہ نئی ماں کی جلد پہلے جیسی ہونے کی امید رکھنا ان کی ذہنی صحت پر بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے۔

عورت پر منفی جذباتی اثر پڑ سکتا ہے۔ وہ نامکمل محسوس کرنے لگتے ہیں، جو مایوسی، خود اعتمادی میں کمی، اداسی اور یہاں تک کہ ڈپریشن کا باعث بن سکتا ہے۔

خواتین اکثر حمل سے پہلے والا جسم حاصل کرنے کے لیے بہت زیادہ پرہیز اور ورزش شروع کر دیتی ہیں۔ مگر یہ سب خود بخود صحتیابی کی جسمانی صلاحیت کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے ماں اور بچہ دونوں متاثر ہو سکتے ہیں۔

اس دباؤ میں کئی بار خواتین خود کو معاشرے سے دور کر لیتی ہیں۔ اپنے جسم کو دیکھ کر وہ شرمندہ ہونے لگتی ہے۔ یہ حالت خواتین میں تنہائی کو بڑھا سکتی ہے۔

ڈاکٹر بھاونا برمی کا کہنا ہے کہ ’حمل سے پہلے کے جسم میں جلدی واپس آنے کا دباؤ نئی ماؤں میں تناؤ کو بڑھا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہر عورت کا جسم دوسری عورت سے مختلف ہوتا ہے اور اس کی صحت یابی کی رفتار بھی دوسروں سے مختلف ہوتی ہے۔‘

کیا کرنا چاہیے؟

سوال یہ ہے کہ حمل سے پہلے کے جسم کے دباؤ سے نجات کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے؟

اس سوال پر ڈاکٹر کرنیکا تیواری کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ کو کسی قسم کا شک ہے تو پہلے اپنے ڈاکٹر سے بات کریں۔ اپنے کھانے پینے کا پورا خیال رکھیں، اور فعال طرز زندگی اپنائیں۔‘

ڈاکٹر بھاونا برمی کا مشورہ ہے کہ ’خواتین کو اپنی حدود خود طے کرنی چاہییں۔ اپنی طاقتوں کو پہچانیں۔ کتابیں پڑھیں، اپنے آپ کو اس بارے میں آگاہ کریں، تنہا نہ رہیں، اپنے سپورٹ نیٹ ورک کو بڑھائیں اور اپنے جسم میں ہونے والی تبدیلیوں کو قبول کریں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot