بدھ، 31 جنوری، 2024

چائلڈ لیبر سروے اور مستقبل کالائحہ عمل

 

                                                 چائلڈ لیبر سروے اور مستقبل کالائحہ عمل


                               کم عمر بچی اینٹون کے بھٹے میں والدین کے کام کرنے پر مجبور ہے 


چائلڈ لیبر سروے اور مستقبل کا لائحہ عمل۔ ......

 تحریر: عمران ٹکر

خیبر پختونخوا چائلڈ لیبر سروے 23-2022 پاکستان میں پنجاب کے بعد دوسرا صوبائی سروے ہے۔ اس سے پہلے ملک بھر میں  

پہلا چائلڈ لیبر سروے 1996 میں ھوا تھا جس میں ملک بھر میں 33 لاکھ بچہ مزدوری کے اعداد و شمار سامنے آئے تھے    

یبر پختونخوا لیبر ڈیپارٹمنٹ نے  اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ یونیسف کے مالی اور تیکنیکی تعاون سے ضم شدہ اضلاع سمیت صوبے بھر میں پہلا چائلڈ لیبر سروے 23-2022 جاری کردی گئ۔

                    ایک بچہ اپنی ماں اور باپ کے ساتھ اینٹیں بنانے والے بھٹھے میں کام کررہا ہے 


خیبر پختونخوا چائلڈ لیبر سروے 23-2022 پاکستان میں پنجاب کے بعد دوسرا صوبائی سروے ہے۔ اس سے پہلے ملک بھر میں پہلا چائلڈ لیبر سروے 1996 میں ھوا تھا جس میں ملک بھر میں 33 لاکھ بچہ مزدوری کے اعداد و شمار سامنے آئے تھے جن میں خیبر پختونخوا میں 11 لاکھ بچے مزدوری پر مجبور رپورٹ ھوئے جبکہ 1996 کے سروے میں سابقہ قبائلی اضلاع اور غیر رسمی شعبہ جات میں کام کرنے والے بچہ مزدوری کے اعداد و شمار شامل نہیں تھے۔
موجودہ صوبائ سروے 23-2022 جو لیبر ڈپارٹمنٹ کا ایک اہم اور بڑی کاوش ہے جس کو مختلف شراکت داروں نے نہ صرف یہ کہ سراہا بلکہ اس سروے میں آنے والے اعداد و شمار کے سامنے آنے پر مختلف تجزیہ نگار اور ماہرین مستقبل میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے اپنا آراء اور تجاویز بھی دے رہے ہیں۔ اسی سروے میں  49,734 گھرانوں سے ڈیٹا اکٹھا کیا گیا جن میں 5,976 شہری اور 43,758 دیہی گھرانے شامل ہیں، خاص طور پر نئے ضم شدہ اضلاع میں سخت موسم اور سیکورٹی چیلنجوں کے باوجود 92.5 فیصد کی رسپانس ریٹ حاصل کی گئ۔ سروے رپورٹ کے مطابق صوبے میں 5 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کی آبادی تقریباً 8.28 ملین یعنی 82 لاکھ 82 ھزار 736 ہے جن میں 43لاکھ 88 ہزار 618 لڑکے اور 38لاکھ 92 ہزار 911 لڑکیاں ہیں۔

 مذکورہ  5 سے 17 سال کے بچوں کی آبادی میں 11.1 فیصد یعنی 9 لاکھ 19 ھزار کام کرنے والے بچے ہیں۔ جن میں سے 80 فیصد یعنی 7 لاکھ 45 ہزار بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں اور مزدوری کر رہے ہیں ان بچوں میں 3لاکھ 78 ہزار 517 بچے زراعت، جنگلات اور ماہی پروری کے شعبے میں کام کر رہے ہیں۔ جبکہ ان میں سے 73.8 فیصد خطرناک حالات میں کام کر رہے ہیں۔ 

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر کی چار بڑی صنعتوں میں زراعت، جنگلات اور ماہی گیری 51.6 فیصد ہے۔ پانی کا ذخیرہ 19.1 فیصد؛ ہول سیل اور ریٹیل تجارت 9.7 فیصد اور مینوفیکچرنگ 7.7 فیصد ہے۔

بچوں کے مشقت میں مبتلا ہونے کی وجوہات کثیر جہتی ہیں، اس سروے رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گھر کے سربراہ جن کی کوئی پرائمری تعلیم نہیں ہے یا صرف 44.7 فیصد ہے، گھرانے کا غریب ترین افراد 31.8 فیصد، گھرانہ بینظیر  انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والا 26.3 فیصد ہے۔ ، گھر کے سربراہ کی ہجرت 14.6 فیصد، اور گھرانے میں کم از کم ایک والدین کو کھونا 6.6 فیصد ہے۔

ان کام کرنے والے بچوں کے حوالے سے سروے کے مطابق 43 فیصد سے زائد بچے سکول نہیں جاتے اور ان میں 22 فیصد بچے ایسے تھے جن کے والدین تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے جبکہ 20 فیصد سے زائد بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ سکول کی بہتر سہولت موجود نہیں ہے
 اسی سروے کے مطابق سب سے زیادہ بچے ضلع بنوں میں چائلڈ لیبر سے وابستہ ہیں جبکہ سب سے کم چائلڈ لیبر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہے۔ سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 16 فیصد بچے کسی نہ کسی زیادتی کا شکار ہوئے ہیں اور چائلڈ لیبر سے وابستہ بچوں میں 28 فیصد سے زائد رات کے وقت میں کام کرتے ہیں۔ 
 خیبر پختونخوا  کے مذکورہ چائلڈ لیبر سروے کو مد نظر رکھتے ھوئے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا اور پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح خیبرپختونخوا میں چائلڈ لیبر کو سماجی و اقتصادی عوامل کے امتزاج سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ 
معاشی مشکلات خاندانوں کو آمدنی کے اضافی ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور کرتی ہیں، اور بچوں کو اکثر کام پر بھیجا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے گھر والوں کا مالی تعاون کریں جبکہ مناسب تعلیمی مواقع کی کمی، بشمول ناکافی انفراسٹرکچر، محدود سکول، اور تعلیم کا ناقص معیار، بچوں کے اسکول جانے کے بجائے مشقت میں مشغول ہونے کے زیادہ امکانات کا باعث بھی بنتا ہے۔اسی طرح بالغوں کی بے روزگاری کی اعلیٰ سطح کے نتیجے میں خاندان بچاؤ کے ذریعہ چائلڈ لیبر کا سہارا لے رہے ہیں، خاص طور پر جب بالغوں کے لیے روزی کمانے کے محدود مواقع ہوں۔چونکہ خیبر پختونخوا میں غیر رسمی یا غیر منظم معاشی سرگرمیاں زیادہ ہیں، جسکی وجہ سے چائلڈ لیبر پر دھیان نہیں دیا گیا ہے اور ان پر کوئی روک نہیں لگائی گئ ہے جبکہ اس جدید دور میں بھی صوبہ میں ثقافتی یا روایتی اصولوں کے مطابق چائلڈ لیبر کی قبولیت ہے اس لئے چائلڈ لیبر میں کمی میں دشواری کا سامنا رہا ہے، جبکہ پچھلے 15سے 20 سال صوبہ خیبر پختونخوا میں قدرتی آفات اور دہشت گردی سے نقل مکانی نے خلل معاش، معاشی مواقع کے نقصان، اور مجموعی طور پر عدم استحکام کی وجہ سے چائلڈ لیبر میں اضافہ کا بھی ایک باعث ہے حالانکہ صوبہ میں مفت لازمی تعلیم، چائلڈ لیبر اور بچوں کے تحفظ کے موجود قوانین اور ضوابط کا کمزور نفاذ بھی ایک وجہ ھو سکتی ہے جس سے لاکھوں بچے چائلڈ لیبر میں ہیں اور سکول جانے کے عمر میں سکول نہیں جارہے ہیں۔   
خیبرپختونخوا میں چائلڈ لیبر سے نمٹنے کی کوششوں کو ان بنیادی وجوہات کو ایک جامع نقطہ نظر کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے جس میں معاشی ترقی، تعلیمی اصلاحات، سماجی بیداری، اور موثر قانون کا نفاذ شامل ہے.
لھاذاخیبرپختونخوا میں چائلڈ لیبر کو کم کرنے میں تعلیم تک رسائی کو بڑھانا، آگاہی بڑھانا، موجدہ متعلقہ قوانین کا نفاذ، غربت کے خاتمے کے پروگراموں کا نفاذ، بالغوں کے لیے پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنا، کمیونٹیز شراکت داروں کو شامل کرنا، مانٹرنگ کے موثر نظام کا قیام، رسمی تعلیم کیساتھ ھنری تعلیم کا فروغ، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ، انٹر پرینورشپ اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا شامل ہے۔ اس جامع نقطہ نظر کا مقصد بچوں کو سکولوں میں رکھنا، بنیادی وجوہات کو حل کرنا، اور ان کی نشوونما کے لیے ایک معاون ماحول پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ بچے تعلیم کے حصول کے عمر میں سکول جائیں نہ کہ مزدوری کیونکہ تعلیم کا حصول انکا بنیادی حق ہے جس سے نہ صرف انکی ذہنی نشونما ھوتی ہے بلکہ انکی شخصیت سازی بھی اور ملک و قوم کی ترقی اور خوشحالی میں ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں جبکہ چائلڈ لیبر سے بچوں کی نہ صرف بنیادی حقوق کی پامالی ھوتی ہے بلکہ وہ ذہنی و جسمانی زیادتی اور استحصال کے شکار بھی ھوتے ہیں جس سے انکے شخصیت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور وہ کبھی بھی اپنے خاندان، ملک اور قوم کی ترقی کے لئے معاون اور سودمند ثابت نہیں ھوسکتے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot