صحافت میں ان خرافات کا ذکر جن سے معاشرتی و سیاسی اصولوں کی پامالی و تعمیر و تعبیر و تشکیل نو کے سامنے رکاوٹیں حائل ہوتی ہیں۔۔۔۔۔تحریر ۔ مقدس زہری
ریاستی و معاشرتی۔اصولوں کی عام آدمی کے دانش و فکری۔سطح پر نئے پیراڈئیم کے ساتھ تشکیل و تعمیر نو کی جہتیں دریافت کرکے سماجی نفسیات کو ہر طرح کی الجھنوں سے نکالنے کا نام صحافت ہے اس لئیے کہ بسا اوقات کچھ خبروں سے ہماری ذندگی کی کایہ پلٹ جاتی ہے یا تو ہم اس دنیا میں رہنے کے قابل بن جاتے ہیں یا پھر عجب نفسیاتی بیماریوں کے شکار رہ کر آخری سانسوں کو گلے لگانے کے منتظر رہتے ہیں خبر انسان کی زندگی کا وہ حصہ ہے جو انسانی اذہان پر اثرانداز ہوتی ہے ایک عام آدمی کی حتٰی الوسع یہ کوشش رہتی ہے کہ کوئی بری خبر سننے کو نہ ملے یہاں تک کہ لوگ بری خبروں سے بچنے کی دعائیں بھی کرتے ہیں لیکن حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جاسکتی بہرکیف میڈیا یہ ہنر جانتا ہے کہ خبر کو کس پیرہن میں پہنچانا چاہیے اور وقت کا درست تعین بھی ایک خبر کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے مجموعی طورپر تو ہم اپنے روزمرہ کے غیر ڈسپلن کاموں کی وجہ سے اپنے اندر کے انسان سے نفسیاتی جنگ تو لڑرہے ہیں یعنی کہ کسی نا کسی طور کمزور نفسیات کے مالک ہیں خوشی حد سے بڑھ جائے تو بھی آنکھوں سے آنسوؤں چھلک پڑتے ہیں اور گر غم کی داستان خبر کے پیرہن میں لپٹی ہوئی ملے تو بھی آنسوؤ پونچھنے پڑتے ہیں جب سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہوئی ہوں مجھے اس کا شدت سے احساس ہوئی کہ
مطمئن و تسلی بخش پیغام رسانی کا عمل تو۔شیوہ پیغمبری ہے یہ امر واضح ہے کہ ہر صحافت اپنے اعتبار سے انتہائی بہترین شعبہ ہے جو کسی طور یتیم بھی اور بےسہارہ بھی اس لئیے کہ صرف لاؤڈ و کیمرے کی مدد سے صحافت کی شکل تو بنائی جاسکتی ہے لیکن اس ڈھانچے میں روح نہیں پھونکی جاسکتی ہے صحافت کا میدان اہل دانش و آرزومندی رکھنے والے اہل علم کا میدان ہے لیکن بدقسمتی کے ساتھ اس شعبے کے ساتھ کسی بھی سطح پر انصاف نہ ہوسکا جنگ کی۔میدان و ہنگامی صورتوں میں جہاں دو چار دن کی ٹریننگ دیکر میدانِ جنگ میں بھیجے جانے والے عام۔عوام کی طرح صحافت کی میدان میں بھی بعینہ یہی حرکت کیا گیا مجھے قدرے شرمندگی ضرور ہوتی ہے جب صحافت اپنے بنیادی اصولوں سے باہر کی دنیا میں جھانک رہی ہو
بہرکیف شعبہ صحافت موجودہ دور میں ایک بہت بڑی طاقت ہے جمہوریت کیلئے انصاف کیلئے ایک توانا ہتھیار ہے ظلم و بربریت کے خلاف ملکی نظام کی بہتری کیلئے ہم کردار ادا کر سکتا ہے اور بیشتر ملکوں میں میڈیا ہی وہ واحد ادارہ ہے جو ان کی غلطیوں کو سدھارنے اور انہیں راہ راست پر چلنے کیلئے مجبور کر رہی ہے ۔
اگر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ ممالک میں شعبہ صحافت ایک بہتر اور منظم انداز میں کام کر رہی ہے جو ان ممالک کی ترقی کا راز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریس کو چوتھا ریاست کا درجہ دیاگیا ہے، اب پاکستان میں صحافت کے شعبے پر نظر دوڑائیں تو تمام برائیاں ادھر ہی پاہے جاتے ہیں، بیشتر صحافی ملکی تعمیر و ترقی کے بجائے کسی پارٹی یا گروہ کے ترجمان بنے بیٹے ہیں ملک میں کرپشن کمیشن اقربا پروری اور دیگر ماورائے آئین کرداروں کی نشاندھی اور ان کے سد باب کیلئے ان کی قلمیں نہیں چلتی بہرحال اگر ان صحافیوں سے جڑے کسی بھی پارٹی یا لیڈر قانون کے گرفت میں آجائے تو یہ ان اداروں کے اوپر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں کسی بہتری کیلئے برسر پیکار ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس وقت ملک میں آئے روز نئے مسائل جنم لے رہے ہیں۔
موجودہ دور میں میڈیا ہی واحد زریعہ ہے جو غلطیوں کی نشاندھی اور ان کو سدھارنے کے لئے تجاویز مہیا کرتی ہے لیکن یہاں صحافی حضرات کسی شخص یا گروہ سے
وفاداریاں نبھا رہے ہوتے ہیں۔
بعض اوقات صحافتی مواد میں غلط تصورات، بے ثبوت بیانات، یا بے دلیل دعوے شامل ہوتے ہیں جو مخاطبین کے ذہن میں غلط تصورات پیدا کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف عوام کو غلط رہنمائی ملتی ہے بلکہ معاشرتی فاسدیت کا بھی باعث بن سکتی ہے۔
حقیقت میں یہ غلطی صرف صحافیوں کا نہیں ہے بلکہ ہر اس ادارے اور فرد کا بھی ہے جو اپنے مقاصد کیلئے انہیں فورس کرتے ہیں ، اس میں منتخب حکومتیں بھی شامل ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بااثر شخصیات جو کسی بھی عہدے پر براجمان ہوتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا اصل کام ملک کو در پیش مسائل سے نکالنا ہوتا ہے لیکن وہ اپنے اپنے ذاتی مقاصد کیلئے انہی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے سب سے پہلے میڈیا پر کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور ساتھ ہی کچھ ایسے صحافی حضرات ہیں کہ ان کے ہر قدم بد نیتی پر مبنی ہوتا ہے وہ جان بوجھ کر ایسے ابہام پھیلاتے ہیں کہ جن کی وجہ سے انارکی جنم لینے لگتی ہے۔
اگرچہ اس وقت پاکستان کے شعبہ صحافت مختلف خرافات سے دوچار ہے، اس کی کردار ملکی تعمیر و ترقی کیلئے صفر ہے لیکن اس کو درست سمت کیلئے تمام صحافی بشمول دیگر ملکی زمہ داران از سر نو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کیلئے مشترکہ طور پر پالسی سازی کریں ۔صحافیوں کو آزاد اور تحقیقی رپورٹس کی اشاعت یقینی بنانا ہوگی بوگس اور افواء پھیلانے والوں کے لئے واضع اور سخت قانون بنائی جائے۔
صحافتی اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر خرافات کو رواج دینے والے ہواؤں کو روکنے کے لیے صحافتی معیاروں کی پابندیوں کی مزید بہتری کی ضرورت ہے تاکہ حقیقتوں پر مبنی، تحقیقاتی اور اعتمادی مواد عوام تک پہنچ سکے
اس طریقے سے پاکستان میں شعبہ صحافت میں خرافات کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا بصورت دیگر آنے والا وقت مزید خرابیاں اور بے چینی پیدا کر سکتی ہے جن کا سدھارنا شاید کہ ناممکن ہو
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں