یہ پریس کانفرنس ڈیجٹل پریس کے شکریہ کے ساتھ شائع کی جارہی ہے
بلوچستان کی سیاسی ورکر خواتین نے جاگیروں کی طرح چلائی جانے والی سیاسی پارٹیوں کی قیادت کے خلاف آلم بغاوت
اٹھا لیا ہے گزشتہ دنوں پی پی پی قیادت کی جانب سے طویل سیاسی جدوجہد کرنے والی سیاسی ورکر خواتین کی بجائے من پسند خواتین
کو مخصوص نشستوں میں ترجعی دینے کے خلاف پارٹی سیکرٹریٹ کے سامنے دھرنا دیا گیا ،گزشتہ دنوں سبی میں بھی غیر جمہوری فیصلے کے
خلاف پریس کانفرنس کی گئی ،اج بروز ہفتہ عورت فاونڈیشن کے پلیٹ اور سیاسی سماجی ورکز نے کوئٹہ پریس کلب مین پریس کانفرنس کی ، فارم سے جزبہ پروگرام کی روح رواں یاسمن مغل ، عورت فاونڈیشن کے ریجنل ڈایریکٹر علاوالدین خلجی
ساؤتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان ، عورت فائونڈیشن ، ضلعی جذبہ فورم اور WLG نے مطالبہ کیاہے کہ نئی آنے والی عو
منتخب حکومت پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ اپنے تنظیمی ڈھانچوں اور مرکزی عہدوں میں خواتین کی کم از کم 33فیصد نمائندگی کے علاوہ نوجوانوں ، خواجہ سراء اور غیر مسلم پاکستانیوں کی مخصوص/عام نشستوں پر نمائندگی کویقینی بنائے۔ بدقسمتی سے بلوچستان میں سال 2013 میں قومی اسمبلی کیلئے 50خواتین، 2018 میں 36 اور 2024 کیلئے 19 خواتین کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اسی طرح سال 2013 میں صوبائی اسمبلی کیلئے 114خواتین جبکہ 2018 میں دو اضافی کے ساتھ 116خواتین اور حال ہی میں 45 خواتین کی جانب سے صوبائی اسمبلی کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہے۔خواتین کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے جو سوالیہ نشان ہے،عورت فائونڈیشن کے دفتر میں عام انتخابات سے متعلق مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیاگیاہے صوبے بھر میں انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کریگی ۔ان خیالات کااظہار جزبہ ڈسٹرکٹ فورم کی ممبرشاہدہ کاکڑ،ممبر جذبہ ڈسٹرکٹ فورم معصومہ احمد سیپ پاکستان کی یاسمین مغل اورممبر WLGشگفتہ خان اور عورت فائونڈیشن کے ریجنل ڈائریکٹر علائو الدین خلجی نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہاکہ ساؤتھ ایشیاء پارٹنر شپ پاکستان ، عورت فائونڈیشن ، ضلعی جذبہ فورم اور WLG کے ممبران اور خواتین سیاسی رہنما الیکشن 2024ء کے حوالے سے خواتین کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جنرل اور مخصوص نشستوں پرجاری ہونے والی سیاسی جماعتوں کی فہرستوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے جاری کردہ فہرستوں میں ایک بار پھر سرگرم خواتین کارکنان، خواجہ سراء اور افراد باہمی معذوری کو یکسر نظر انداز کر کے روائیتی طریقے سے خواتین کو نمائندگی دی گئی ہے۔جن میں اکثریت موروثی سیاست اور سیاسی اثر ورسوخ رکھنے والی خواتین اور گروپس کو اہمیت دی گئی ہے۔جبکہ براہ راست نشستوں پر اب بھی صرف مجموعی طور پر 11% خواتین امیدواروں کو نامزد کیا گیا ہے جوکہ خواتین کی کم از کم 3% 3نشستوں کے مطالبہ سے واضح طور پر کم ہیں۔ اس کے علاوہ اقلیتی خواتین کو بھی بہت کم نمائندگی دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے بلوچستان میں سال 2013 میں قومی اسمبلی کیلئے 50خواتین، 2018 میں 36 اور 2024 کیلئے 19 خواتین کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے اسی طرح سال 2013 میں صوبائی اسمبلی کیلئے 114خواتین جبکہ 2018 میں دو اضافی کے ساتھ 116خواتین اور حال ہی میں 45 خواتین کی جانب سے صوبائی اسمبلی کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرا چکی ہے۔خواتین کی تعداد میں اضافے کی بجائے کمی آرہی ہے جو سوالیہ نشان ہے،عورت فائونڈیشن کے دفتر میں عام انتخابات سے متعلق مانیٹرنگ سیل بھی قائم کیاگیاہے صوبے بھر میں انتخابی عمل کی مانیٹرنگ کریگیہم مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں درج ذیل نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ان خواتین کو الیکشن میں نامزد کریں جو حقیقی معنوں میں عوامی نمائندہ ہیں اور عرصہ دراز سے خواتین کے حقوق اور سیاسی نمائندگی کے لئے سرگرم ہیں۔ تمام منتخب اسمبلیوں اور مقامی حکومتوں میں آبادی کے تناسب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خواتین کی نشستوں کی تعداد میں بتدریج اضافہ کیا جائے اور ان کی نمائندگی کو33 فیصد تک بڑھانے کے لیے فوری آئینی ترامیم کی جائیں ۔پاکستان میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے تسلسل کو برقرار رکھنے کیلئے آئینی ترامیم کے ذریعے مقامی نظامِ حکومت کو مکمل تحفظ دیا جائے، نیز ہر پانچ سال بعد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنایا جائے۔ نئی آنے والی منتخب حکومت پاکستان الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کر کے تمام سیاسی جماعتوں کو پابند کرے کہ وہ اپنے تنظیمی ڈھانچوں اور مرکزی عہدوں میں خواتین کی کم از کم 33فیصد نمائندگی کے علاوہ نوجوانوں ، خواجہ سراء اور غیر مسلم پاکستانیوں کی مخصوص/عام نشستوں پر نمائندگی کویقینی بنائے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہر اُمیدوار کوطے شدہ اخراجات کے مطابق انتخابی مہم چلانے کا پابند کرے، اگر کوئی اُمیدوار طے شدہ اخراجات سے تجاوز کرے تو اُسے انتخابات میں حصہ لینے کیلئے نااہل قرار دیا جائے۔ سیاسی جماعتیںایسے حلقوں کی جنرل نشستوں پر خواتین اُمیدواروں کی کم از کم 17فیصد نمائندگی کو یقینی بنائیں ، جہاں پارٹی کے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں ۔الیکشن کمیشن آف پاکستان ،الیکشن ایکٹ 2017ء میں ترامیم کے ذریعے ایسے حلقوں کے انتخابات کو کالعدم قرار دے جہاںخواتین کے ووٹ ڈالنے کی مجموعی شرح 20 فیصد سے کم ہو۔خواتین، خواجہ سرا، مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد اور غیر مسلم امیدواروں کے لیے نامزدگی کی فیس 50% تک کم کی جائے۔الیکشن کمیشن حاملہ خواتین، مخصوص صلاحیتوں کے حامل افراد اور بزرگ شہریوںکی پولنگ اسٹیشنوں تک آسان رسائی کیلئے اقدامات کرے۔ سیاسی پارٹیاں قومی اور صوبائی اسمبلی میں عورتوں کی مخصوص کی جانے والی نشستوں پر ان خواتین کو شامل نہ کریں جو تیسری بار اسمبلی کی ممبر بن رہی ہو۔ تاکہ دیگر سیاسی ورکرز خواتین کو موقع مل سکیں اور عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت میں اضافہ ہو سکے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت خواتین کارکنان کے ان مطالبات کو اپنے پارٹی منشور کا لازمی حصہ بنائیں گی اور منتخب ہونے کے بعد ان مطالبات پر من وعن عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے
۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں