جمعرات، 26 اکتوبر، 2023

چھلگری تاریخی تناظر میں

                                                  چھلگری  تاریخی  تناظر میں 


            محقیق مختار احمد چھلگری



گاؤں چھلگری ضلع کچھی تحصیل بھاگ بلوچستان کا ایک تاریخی گاؤں ہے۔ چھلگری بلوچوں کا  ایک قبیلہ بھی ہے جو مری قبیلے کی ذیلی شاخ گزینی سے تعلق ہے۔ چھلگری قبیلے کا نام کوہلو کے ایک پہاڑی چھلگر پہاڑی سے منسوب ہے۔اس پہاڑی کے اندر چالیس غار موجود ہیں۔بلوچی زبان میں چھل، چالیس کو او رگر کو  غار کہتے ہیں۔یعنی چالیس غاروں کے رہائشی کو چھلگری  کہتے ہیں۔اور یہ پہاڑی سلسلہ،جو کہ ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کے درمیان واقع ہے۔  بنیادی طور پر چھلگری اسی پہاڑی  سلسلہ بھمبھور کے  غاروں کے رہائشی تھے اور ہیں۔۔   بقول   عظیم سیکولر دانشور سبط حسن غار انسان کی قدیم ترین پناہ گاہ ہوا کرتی تھیں۔ جہاں انسان نے اپنی ابتدائی تقریبا  ۰۲ لاکھ سال زندگی انہی غاروں میں بسر کی ہے۔ اور غاروں سے انسان نے افزائش نسل کے راز سیکھے کے علاوہ   موسم کی سخت گیروں سے بچنے کے طریقے وضع کیئے۔ ان کے مطابق غار انسان کی اولین مولا و مسکن بھی تھے اور معبدو مقابر بھی تھے(۱)۔ یہاں یہ بتانا اس لیے ضوروی سمجھتا ہوں۔کہ صرف چھلگری نہیں بلکہ انسان جتنا کیوں نہ ترقی یافتہ  زندگی گزارے یا آنے والی  نسلوں کوبھی ان تلخ حقیقتوں کو یاد کرنا چاہیے کہ ان کے آب و اجدا د بھی چھلگریوں کی طرح غاروں میں یا پھر کو ہستانی  پناہ گاہوں میں خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ البتہ میدانوں میں بھی وہ زمین میں گھڑھا کھود کر اس پر گھاس پوس ڈال کر زندگی گزارتے تھے۔ نواب اکبر خان بگٹی کوبھمبھور کے پہاڑی  سلسلہ  چھلگری میں شہیدکیاگیا تھا۔(ڈان اخبارکراچی۷۲ اگست ۶۰۰۲)۔(۲)

مری بلوچوں کا  چھلگری  قبیلہ اب بھی اپنی آ ب وجداد کی زمین کوہلو کے چھلگر پہاڑی سے لے کر چھلگری کچھی، ہرنائی، کچھ، سبی، حب چوکی،کوئٹہ، نصیرآباد، جعفرآباد، جیکب آباد، حیدر آباد،شہداد کوٹ، بدین،  میر پور  خاص اور دادو میں پھیلا ہوا ہے۔ میں یہا ں صرف گاؤں میں موجودہ چھلگری کے تحائف کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔گاؤں  چھلگری کا شمار  بلوچستان کے تاریخی گاؤں مہرگڑہ، نوشہرہ ،تمبو  اور پیرک جیسوں میں ہوتا ہے۔ امپیریل گزیٹئر آف انڈیا پرونشل سیریز  بلوچستان کے  صحفہ ۵۶۱ کے مطابق یہ گاؤں  بدھ مت کے دور کا گاؤں ہے۔یعنی۰۰۴ سال قبل از مسیح سے وجود رکھتا ہے۔یعنی دوہزارچار سو سال پرانا گاؤں ہے۔اس میں دوہزار چار سال قبل بدہسٹ  مذہب کے لوگ رہائش پذیر تھے۔(۳)۔ چوتھی صدی قبل از مسیع  میں ہندوستان کے حکمران  چندر گپت  موریہ کے عہد میں یہ علاقہ ھندوستان کی بدھ سلطنت کا حصہ رہااور اس علاقے یعنی 

چھی کو بدھ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔قدیم تاریخ میں عرب اس علاقے کو بدھ  کہتے تھے۔

  چھلگری گاوں میں آثار قدیمہ سے بدھا کے مجسمات  اور مٹی کے برتن اوراوزاروں کی تحقیق سے تہذیب کی ترقی کا پتہ چلتا


 ہے۔یہ گاؤں کتنا قدیم اورترقی یافتہ تہذیب سے وابستہ  رہا تھا۔ جس طرح  فرانسیسی عالم کرسٹن تھامس (۴)نے ۶۳۸۱ میں انسانی ارتقاء اور ترقی کے تین مدارج  متعین کئے ہیں۔ اوزاروں کو ان تین مدارج کا پہچان کا معیار قرار دیا ہے۔پہلا دور، پتھر، ھڈی اور لکڑی کے اوزاروااان کا استعمال، جو مہر گڑھ میں بھی پائے جاتے ہیں۔دوسرے  دور کی شناخت دھات ہے جس میں کانسے کے اوزار کا استعمال  دور اور تیسر دور ا لوہے کا دور، جو ٓاج تک جاری ہے۔(۵) چھلگری گاؤں کے  دریافت شدہ آثار قدیمہ  سے معلوم ہوا ہے کہ یہ تہذیب  قدیم دور کے تہذیبوں یعنی مہرگڑھ ،، موہنجوداڑو، تمبو،نوشہرھ اور پیرک کی تہذیبوں  کا تسلسل ہے۔  میری معلومات  اور علم کے مطابق اس گاؤں میں ہمارے آب و اجداد تقریبا   پانچ سو سال قبل ٓاباد ہوئے ہیں۔اس پانچ سو سال کی تاریخ کا اندازہ  قبرستان میں موجود  اپنے آب اجداد کی قبروں کی شناخت سے معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ لوگ پشت در پشت اپنی پچھلے سات پشتوں سے رشتے داروں کی قبروں سے اچھی طرح  واقف ہیں  آج سے تقریبا ُ پانچ سو سال پہلے چھلگری چار گروہوں کی صورت میں مختلف ادوار میں اس گاؤں میں آباد ہونے کی شواہد ملتے ہیں۔ جن کا تعلق مختلف تحائف سے ہے۔بڑے عمر کے لوگ یہ بتاتے تھے کہ پرانی ٓابادی جن میں فوجہ فقیر کا خاندان،ھندووئں چھلگری، بگیہ،دھریجہ ا، چانڈیہ،ایری، لیحی  اور ماچھی شامل ہیں جو اس گاؤں کی پرانے رھائشی تھے۔ باہر سے ٓا نے والوں کا پہلا گروہ  ہرنائی کے علاقے سے چھلگری  ٓاباد ہو ا ۔ یہ وہ زمانہ تھا  جب  یہ علاقہ سر سبز تھا  اور اکژ کوہستانی مری قحط سالی کی صورت میں اپنے علا قے کو چھوڑ کر کچھی کے اس سرسبز آباد علاقوں میں لوٹ مار کرتے تھے۔ مریوں کی راہ زنی کے بارے  میں ہوتورام تاریخ بلوچستان میں لکھتے ہیں کہ“ کچھی کا علاقہ مریوں کی راہزنی اور لوٹ مار کا شکار گاہ ہوتا تھا۔“ (۶)۔ اور اس علاقے میں ان کی لوٹ مار کی آج بھی لوک کہانیاں مشہور ہیں۔اس طرح کی کہانی راقم کو شھید بادشاہ کے فقیر نے بتائی۔ مری جب لوٹ مار کرتے تھے تو مقامی لوگ،کسی طرح کی مزاحمت نہیں کرتے تھے اور اس طرح وہ لوٹ کر چلے جاتے تھے ۔شہید بادشاہ جو کہ ایک سید تھا جس کا تعلق سندھ کے کسی گاؤں سے تھا۔ دشتی  بلوچوں کے ہاں مہمان تھا، کہ رات کو گاؤں پرراہزن  مریوں نے ہلا بول دیا۔ مہمان سید بادشاہ نے مزاحمت کی اور وہ شہید ہوئے۔ جس کا مزار اب بھاگ روڈ  شرکل ندی کے کنارے واقع ہے۔ دوسری جانب مریوں کی بہادری اور بلوچی روایات میں قول و قرار کی پابندی ہی بلوچوں کاقومی شعار چلا آ رہا ہے۔ قدیم زمانے میں کسی بھی شخص یا قوم کی ہمت، بہادری، جرائت کو جانچنے کا واحد معیار یہ تھا کہ وہ  اپنا قول نبھانے کے لیے کس حد تک قربانی دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے بلوچوں کی تاریخ بھری پڑی ہے،  میر چاکررند  کا جھوٹ نہ بونے کا  قول، میر ہیبت کے اونٹ کے گلے میں کسی اور کے اونٹ کا شامل ہونااور پھر اسے واپس نہ کرنے کا قول،۔ میر جاڑو کی داڑھی پر ہاتھ لگانے والے کا سر قلم کرنے کا قول،او ر  شہ مرید سے جمعرات کو علی الصبح کچھ مانگنے  والے کی صدا کوپورا کر دینے کا قول،  یہ بلوچ تاریخ میں بہت مشہور ہیں۔ لیکن  اس بارے میں انگریز دانشورچارلس رینالڈولیم  اپنی کتاب  ڈیفینس آف کاہان میں لکھتے ہیں“کہ دنیا کی مہذب سے مہذب ترین قوم بھی جو کہ اس طزعمل سے زیادہ شریفانہ انداز اختیار نہیں کر سکتی تھی جو کہ کاہا ن  خالی کر دینے کے وقت سے لے کرفوج کے میدانوں تک پہنچنے کے وقت تک مریوں نے اختیار کیا۔ مزید کہتے  ہیں ہم نے مریوں کو زیادہ مہذب اور شائستہ  انسان  پایاہم نے ملاقات کر کے ان کے قول پر جس اعتماد کا اظہار کیا اس سے  وہ بہت زیادہ خوش ہوئے اور پانچ  طویل مہینوں تک ایک دوسرے کے ہلاکت آفریں دشمن رہنے کے بعد ایک ہی گھنٹے میں ہم بہترین دوست بن گئے۔“  (۷) 

 ہرنائی سے وڈیرہ چاکر خان  چھلگری کی سربراہی میں قبولیانی تحائف یعنی قبولا خان کی اولاد سے گاہی خان، مولا داد اورشیرعلی چھلگری گاؤں میں آ کر آباد ہوئے۔، ٓاج کے قبولیانی مولا دا د کی اولا  جبکہ شیرلیانی شیر علی کی اولا،محب علی کی اولاد ، محبلیانی،  د،ڈیرہ خیل گاہی خان کے بڑے بیٹے ولی محمد  جن کو پرانے لوگ  ولو گھرانہ  اور میرخیل چھوٹے بیٹے خدابخش کی اولاد سے ہیں جن کو پرانے لوگ  اب بھی خدو گھرانہ کہتے ہیں۔۔جبکہ مسکلیانی اور دلشانی  ہرنائی سے لے کر سبی تک آج بھی پھیلے ہوئے ہیں۔جن کا وڈیرہ نواب خان  چھلگری اور مسکلانیوں کا  معتبر مولوی حاجی عبدالخالق چھلگری  جو کہ وڈیرا  شھداد خان چھلگری کا بیٹا ہے اور ہرنائی میں رہائش  پذیر  ہیں۔چھلگری گاؤں  میں دوسرا گروہ کوہ سلیمان چوٹی بالا لغاری کے علاقے قبولا واہ سے گاجی خان کی سربرائی میں  اپنے  تین  بیٹوں، چھتا خان، مہر علی اور قیصر خان  کے ساتھ چھلگری میں آے۔ا ٓج یہ تین پاڑے یعنی  چھتیانی
اندازہ  نہیں اپنی تاریخ اور اپنے ماضی سے عداوت ہمیں ذلت کے گہرے گھڑے میں جا ڈال دے گی۔ (ڈاکٹر شاہ محمد مری“ مری بلوچ جنگ مزحمت“ چارلس رینالڈ
 ولیمکی کتاب صحفہ نمبر ۶۔)(۲۱)۔تواب  ایک طرف ایسی صورت حال  میں زندہ ہ  رہنے پر مجبور  ہیں، جہاں ایک فرد  سارے  افراد کے خلاف صف آرا ہے۔اور سب افراد مل کر ایک فرد کے خلاف کمر بستہ ہیں۔ شکو شبہ اور عدم اعتماد کا راج ہے۔ہم سماجی سائنس کے بہت بڑے فنکاروں کے ماہر ہاتھوں سے تراشے روبوٹ ہیں جو چاکر سے لے کر چاند کی تسخیر کے عصر تک اور مزنگ سے لے کر چاہ بہار تک صرف اور صرف برادر کشی کے عمل کو بار بار دہرا تے ارہے ہیں۔اور نتجا  آج بلوچ سے بڑا گلیڈیٹر روئے زمین پر کوئی نہیں (ڈاکٹر شاہ محمد مری“ مری بلوچ جنگ مزحمت“ چارلس رینالڈ ولیم کی کتاب صحفہ نمبر۸۔)(۴۱)۔ لیکن دوسری جانب بحیثیت مارکسسٹ راقم پر امید  ہوں، اور توقع رکھتا  ہوں کہ آج کا نوجوان نہ صرف اس دیوبلاکو نہیں مایتے بلکہ دنیا کی نئی جدید سائنس کی معلوما ت اور علم کے ساتھ ساتھ تاریخی مادیت اور  جدلیاتی مادیت سے نہ صرف واقفیت  بلکہ معاشرے میں ان سائنسی  اصولوں پرعمل درآمدگی کے قوانین کی بھی جانچکاری رکھتے ہیں دنیا اب جدلیاتی مادیت کی  ترقی کے علم اور قوانین اور اس کی روشنی میں ہونے والے ترقیاتی مراحل کے دور سے گزر رہی تھی۔ پرانے خیالات کے مقابلے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی تھی نوجوان کو اب ایشیاء پر سوشلسٹ انقلاب کے بھوت  مندلاتے ہو ئے دکھائی دے رہے تھے۔ آ ج  کے نوجوان سورج گرہن  اور چاند گرہن کو، زلزلوں اور آتش فشاں پہاڑوں کو دیو یا دیوتاؤں کی کار فرمانی نہیں بلکہ جدید سانئس کے علم کے ذریعے ان کی وجوہات کا علم بھی جانتے ہیں۔ آج   کے نوجوان چھلگری کے اس دیو  بلا والے ٹیلے پر دن تو کیا رات کو بغیر کسی خوف کے اس پر بیٹھ کر گاؤں سے پندرھ کلو میٹر کے فاصلے پر نیشنل ہائی وے  پر چلنے والی ٹریفک کا  نظارہ کرتے ہیں۔ اتنے دور یعنی  ۵۱ کلو میٹر کے فاصلے سے گاڑیوں کا نظارہ کرنا اس لیئے ممکن ہے کہ یہ علاقہ میدانی ہے گاؤں اور قومی شاہراہ کے درمیان  نہ کوئی ٓابادی، نہ جنگلات، اور نہ  ہی  مکانات وغیرہ ہیں۔ میدان کا  سرٓاب پانی کی طرح چمکتا ہے۔ میدان یوں لگتا ہے جیسے کوئی سیلاب ٓایا ہوا ہے۔کچھی کا  سر آب بہت مشہورہے۔جس کے بارے  میں کہاوت مشہور ہے کہ پرانے زمانے میں جب خراسان سے خانہ بدوش جو کچھی سے نا بلد تھے۔ اس علاقے میں داخل ہوئے تو کچھی کے سر آب کو دیکھا  انھیں سیلاب کی طرح، پانی  ہی پانی نظر آ رہا تھا؛ انہوں نے سر آب کو پانی سمجھ کر اپنے مشکیزے  خالی کر دئیے تاکہ وہ  تازہ  پانی مشکیزے میں بھریں سکیں۔ جبکہ پانی کا کوئی وجود نہ تھا۔اس طرح انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
  جس طرح دنیا میں تاریخ کے ہر دور مین انسانوں نے تہذیبوں کو پیدا کیا تہذیبوں کو ترقی دی بہت سی تمدن برباد ہوئے مگر انھی کی خاک  سے نئے تمدن نے سر اٹھایا۔ ا؎؎؎؎؎؎سی طرح  گاؤں چھلگری ایک قدیم اور تاریخی گاؤں ہے ہمارے اپنے ضلع میں موجود قدیم انسانی تاریخ کا مہذب اور قدیم  ترین مہرگڑھ کی تہذیب  جو  ۰۰۰۹  ہزار سال پرانی ہے اس طرح مہر گڑھ اور نوشہرہ جو  چھلگری کی تہذیب سے شمال میں ۰۶ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں جن کا شمار دنیا کی قدیم ترین  مسپوٹینیہ، موہنجو داڑو، ہڑاپہ سے پرانی  تہذیبوں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب تاریخ کی چھاؤں میں صفحہ نمبر ۳۴ میں لکھتے ہیں:“  وادی سندھ کی تہذیب جو مشرقی افغانستان سے شروع ہو ئی اور بلوچستان میں آ کر اس نے پختہ شکل اختیار کی مہرگڑھ کی کھدائی کے بعد بلوچستان کی تاریخ پتھر کے دور تک چلی گئی ہے۔یہاں پر جو شواہد ملے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ غذا اور شکار کے زمانے میں بھی انھوں نے کاشت شروع کر دی تھی۔ کیونکہ یہاں سے کپاس اور گندم کے جلے ہوئے دانے ملے ہیں۔ مردوں کو دفن کرنے کا رواج تھا ان کے ساتھ ان کے  استعمال کی اشیاء بھی دفن کی جاتی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ان میں دوبارہ سے زندہ ہونے کا عقیدہ تھا۔“ (۵۱)  چھلگری کے شمال مشرق میں ڈیرہ بگٹی اور بارکھان میں پانچ کروڑ سال پرانے دفن شدہ  ڈائنوسار،وہیل مچھلی اور بلوچی تھیریم (جو ۰ ۳ ے ۰۲ ملین سال قبل تک یہاں بلوچستان میں ۵۸۹۱ مین سوئی سے شمال میں دریافت ہوئی)۔کی ہڈیاں نکلی ہیں گذشتہ تین چار دہائیوں میں جونئی نئی دریافتیں بلوچستان میں ہوئی ہیں انہوں نے پوری دنیاکی، جیالوجی،ٓارکالوجی اور بیالوجی کی سمتیں بدل ڈالی ہیں۔وہیل خشکی کا ممالیہ جانور تھا یہ  پانچ کروڑ سال قبل چار  پیروں پر چلتا تھا اور پھر رفتہ رفتہ سا نے ٹانگوں سے نجات حاصل کی جوفاسلز  بارکھان میں ملی اس کی ٹانگین موجود ہیں۔ ان ٹانگوں کو وہ سمندر سے نکل کر خشکی میں ذندگی گزارنے میں بروئے کار لاتا تھا۔۔بارکھان میں اس کی کادہ ملی۔اور یہ خشکی پر ملی یہیں یہ وہ حاملہ ہوئی تھی اور یہیں پہ بچے دیتی تھی اس کا خشکی سے سمندر جا بسنے کا سارا ارتقائی زمانہ ہمیں پروفیسر فلپ گنجرخ کی دریافت نے بتا دیا۔(۶۱) (۔ڈاکٹر شاہ محمد مری کی کتاب“ بلوچ قوم عہد قدیم سے ریاست کی تشکیل تک“ 
 اسی طرح  بلوچستان کی تہذیبی ترقی کے حوالے سے  ماہر سر جان مارشل (۷۱)جس کی تصدیق آثارے قدیمہ موہنجو دڑو کے مورتیوں سے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ہر شخص جانتا ہے کہ وادی سندھ اور بلوچستان میں عورتوں کی جو مورتیاں نکلی ہیں ویسی ہی مورتیاں عراق، شام،فلسطین،قبرص، کریٹ، بلقاں،ایران  اور مصر میں بھی کثرت سے ملی ہیں۔علما  ئے آثار قدیمہ کی متفقہ رائے ہے کہ یہ مورتیاں مادر کائینات یا قدرت کی دیوی کی ہیں۔وادی سندھ کی مورتیاں  مغربی ایشیا کی مورتیوں کی مانند غالبا سماج کے اموی دور میں ایجاد ہوئی ہیں اس قدر کے بلوچستان سے میرا اور ٓاپ کا واسطہ ہے جس پر ھم سب کو فخر ہے اور کیوں نہ اس سے محبت کریں  یہ محبت کے لائق سرزمین  ہے۔ عظیم  دانشورسید  سبط حسن نے کہا  ہر تہذیب اپنے تمدن کی پیش رو ہوتی ہے تہذیب کے لیے شہر، دہات، کوہستان،صحرا کی  کوئی قید نہیں ہے،کیونکہ تہذیب معاشرے کی اجتماعی تخلیقات اور اقدارکا نچوڑ ہوتی ہے۔(۸۱) چھلگری ایک خود کفیل گاؤں کی حیثیت، ہجرت  اور زبان کی سیاست   
  چھلگری گاؤں ایک زمانے سے  خود کفیل سماجی نظام کے تحت اپنی بہت ہی کم رفتاری کے ساتھ ترقی کر تا ہوا ٓاگے کی طرف رواں دواں ھے۔ اس خود کفیل سماجی نظام کے تحت گاؤں میں موچی، ترکھان،  لوہار،نائی،حجام،میراثی،دایہ،ہندووئں کے پنڈہت اور مسلمانوں  کے ملا ، غرض کہ تمام پروفیشن کے لوگ موجود ہیں۔گاؤں کی سماجی اور معاشی زندگی کی روانی  میں ان تمام لوگوں کا رشتہ زمین سے  جڑا ہوا تھا۔ اور اس طرح  زمینیں ٓاباد ہوتی تھیں اور  زمیندار، خود کاشتکار  یا کسان خوشحال تھے۔اور یہ تمام طبقات یا ہنر مند، یعنی دستکار،  موچی کمہار، لوہار، ترکھا ن،حجام،وغیرہ جن سے گاؤں کے لوگ اناج کے
 بدلے کام لیتے تھے۔اور جب فصل تیار ہوتی یہ تمام  دستکار اپنی  سال بھر کی خدمات کے عیوض کسانوں اور زمینداروں سے زمین کی فصلات سے حاصل شدہ  پیداوار سے اپنا حصہ جنس کی صورت میں وصول کر کے اپنی زندگی کو رواں دواں رکھے ہوئے تھے۔گاؤں کی زندگی میں راقم کے بچپن تک جنس کے بدلے جنس کا تبادلہ زیادہ  ہوتاتھا اس معاشی نظام کو کارل مارکس سادہ طریقہ پیداوار کا نام دیتا ہے۔جس طریقہ پیداوارنے آگے چلکر سرمایہ داری نظام کی نوید دی ہے۔ جس میں مقابلے کا رجحان بہت کم ہوتاہے۔ اور معاشرتی  زندگی بہت ہی سست رفتاری سے بس صرف چلتی ہے دوڑتی نہیں۔گاؤں میں  ہندو چھلگری طبقہ جنس بذریعہ جنس کا کاروبار کرتا تھا۔ گاوئں میں ہندوں طبقے کا ترقی پسندانہ کردار رہا ہے۔ چوں کے کھیل کے لیے کابچوں کو کھلونے متعارف کروانااور بڑوں کے لیے تاش کے پتے، لڈو، متعارف کروانہ کے
ہوتاہے۔ اور معاشرتی  زندگی بہت ہی سست رفتاری سے بس صرف چلتی ہے دوڑتی نہیں۔گاؤں میں  ہندو چھلگری طبقہ جنس بذریعہ جنس کا کاروبار کرتا تھا۔ گاوئں میں ہندوں طبقے کا ترقی پسندانہ کردار رہا ہے۔ چوں کے کھیل کے لیے کابچوں کو کھلونے متعارف کروانااور بڑوں کے لیے تاش کے پتے، لڈو، متعارف کروانہ کے علاوہ تمام کھیلوں اور دوسر ی  انٹرٹینمنٹ  اور نئی ضروریات کی تخلیقی اشیا کا متعارف کروانے کا سہرا اس طبقے کے سر جاتا ہے جس کو دوکاندار یا سیٹھ کہتے تھے۔ یہ سیٹھ  شہر جا کر اس جنس کو پیسوں کے بدلے بیچتا اور رخورد و نوش اور روز مرہ ضرورت کی چیزیں جو گاؤں میں ناپید ہوتی لاتا۔ جس  سے گاؤں کی ترقی  میں اس  طبقے کا بڑا اہم کردار  رہاہے۔ نئی انسانی ضروریات کو گاؤں میں متعارف کرواتا ہے مندرجہ بالا تحقیقا ت کی روشنی میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ قدیم دور میں  چھلگری  یا بلوچستان اتنا خشک بنجر یا اور کم پانی والا علاقہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ علاقے آباد اور سرسبر اور شاداب تھا  جیسا کہ دنیا کی تمام قدیم تہذیبیں دجلہ اور فرات، گنگگا اور جمنہ،سندھ یا نیل جیسے دریاؤں کے کناروں پر ٓاباد تھیں۔ اسی طرح جدید دور کی تحقیق  یہی بتاتی ہے کہ بلوچستان کا یہ علاقہ قدیم دور میں  اس طرح خشک اور بنجر نہیں تھا  یہاں بارشیں زیادہ ہوتی تھیں  بلوچستان کی یہ تمام تہذیبیں،مہرگڑھ،نوشہرھ،پیرک،چھلگری اور تمبوبھی دریائے بولان ادر دریائے ناڑی کے کنارے ٓاباد تھے۔
آج سے تقریبا  ۰۰۲ سال پہلے گاؤں چھلگری   خشک سالی اور سخت قحط کا شکار ہوا،زمینیں غیر آباد، گاؤں میں پانی کے تمام کنویں بھی خشک ہو گے۔گاؤں والوں نے گاؤں کے مشرق کی جانب چار کلو میٹر کے فاصلے پر ندی شرکل جس کو قبولا بھی کہتے ہیں اس ندی کے اندر سارا سال     سیم کاپانی تقریبا دس فٹ کے فاصلے پر مل جاتا ہے۔لیکن پانی کی مقدار بہت ہی کم ہے، یعنی  ایک کنواں سے۴۲ گھنٹوں کے دوران ۰۰۵ لیٹر پانی حاصل ہوتا تھا۔ جس طرج بلوچستان کے باقی علاقوں میں گھر یلو ضرورت کے پینے کے لیے پانی  کی لانے کی زمہ داری  خواتین  ادا کرتی ہیں ِاسی طرح چھلگری میں بھی خواتین تین کلو مٹر کے فاصلے  سے مٹی کے بنے مٹکے  جن  مٹکوں کا خالی وزن دس کلو جبکہ پانی سے بھرے مٹکے کا وزن ۰۳ کلو اپنے سروں پر اٹھا کر پہنچاتی ہیں  اور دن میں کم از کم دو سے تین  پھیرے لگا  تی ہیں۔بلوچی رسم کے مطابق ان خواتین کو ایک سہولت تھی وہ یہ کسی بھی خاتون کو ندی میں اتر کر کنوں سے پانی نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔ کنوئے سے پانی نکالنے کی ذمیداری مرد کی ہوتی تھی۔ جو بیک وقت اگر کسی خاتون کے ساتھ اپنے گھر کاکوئی  مرد پانی بھرنے کیلیے نہ ہو تا تو کنوٗے سے پانی نکال کر  ندی سے باہر تک لانے میں ان کی مدد کرتے تھے ۔ اتفاق سے ایک رات کچھ گھڑسوار چوکیدار سے بغیر اجازت لیئے کنوئے سے پانی نکالنا شروع کیا۔ چوکیدار کی جب آنکھ کھلی تو اس نے گھڑ سواروں کو ان کے گھوڑوں کو پانی کی اجازت نہ دینے پر تکرار شروع  ہوئی اور گھڑ سواروں نے اس چوکیدار کو قتل کر دیا اور اپنے گھوڑوں کو پانی پلا کر روانہ ہوئے۔ اگلے دن معلوم ہوا کہ یہ گھڑسوار مغیری قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ چھلگریوں  نے جرگہ کر کے فیصلہ کیا کہ خون کا  بدلہ تو ہر صورت لینا ہے، لیکن جنگی حکمت عملی پر میں اتفاق نہ ہو سکا۔ لہذا کچھ لوگوں نے  اپنی خواتین بچے اور بوڑھے  کوسندھ منتقل کر کے مغیریوں سے بدلہ کے بعد خود بھی سندھ کوچ کرجانے کا مشورہ دیا جو کہ مری قبیلے کی قبائلی رسم ورواج ہے،  یہی جھگڑا یا جنگ کرنے کے بعد علاقہ چھوڑ دینا۔ جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ  بدلہ لینے کے بعد بھی اپنے علاقے میں رہ کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہتے تھے۔ اس طرح مغیر یوں کے ساتھ بدلے کی جنگ ہوئی اور اس کا فیصلہ بھی ہوا۔ اور چھلگری قبیلے کے معتبریں نے  مغیریوں کو عزت اور احترام دینے کیلیے فیصلے کے دوران میڑ ھ میں ایک خاتوں مراد بی بی جو کہ میر جھنڈا خان کی والدہ تھی کو ساتھ لے کر گئے تھے،مغیریوں نے میڑھ میں موجود  خاتون مراد بی بی کو بلوچی رسم کی پاسداری رکھتے ہوئے۔ صلح بھی کی اور ساتھ میں ۰۲ ایکڑ زمین اپنے گاؤں کے قریب چادر دوپٹہ کے طور پر عزت میں دی۔ مغیریوں سے جنگ سے متاثریں چھکگری آج سندھ مختلف اضلاع میں بکھرے ہوئے  اور در بدر ہیں یعنی، حیدر آباد، بدین، میر پور خاص، جیکب آباد، شھداد کوٹ، اور دادو  وغیرہ۔ لیکن انھوں نے اپنی زبان چھوڑ کر بلوچوں کی دوسری زبان یعنی سرائیکی اختیار کی۔ ۰۹۹۱ کی دہائی تک کچھ بڑی عمر کے لوگ بلوچی جانتے تھے۔ لیکن اب معلوم نہیں جانتے ہیں یا نہیں لیکن یہ اہم نہیں ہے۔ کیونکہ بلوچستان میں بلوچ قوم  9 مادری  زبانیں بولتے ہیں مثلا نواب مگسی،سردار  مغیری،سردار بھوتانی، سردار مینگل،  سردار عالیانی جام آف لسبیلہ، سردار رنداپنے گھروں میں سندھی زبان  بولتے ہیں،جبکہ جمالی سردار کا خاندان اپنے گھر میں سرائیکی بولتا  ہے۔ جبکہ ان تمام قبائل کے عوام ان سے ہٹ کر اپنی اپنی مادری زبانیں بولتے ہیں۔یعنی  مینگل قبیلہ براہوی، مگسی قبیلہ بلوچی، مغیری قبیلہ بلوچی، بھوتانی قبیلہ سندھی اور جام کا جاموٹ قبیلہ بھی سندھی زبان بولتے ہیں اور قبیلہ جمالی بلوچی بولتے ہیں۔ جدگال، جدگالی، دہوار دہواری، کھیتران، کھیترانی  بولتے ہیں لیکن یہ تمام  بلوچستان کے بلوچ قبائل کی اپنی  مادری زبانیں ہیں۔لیکن ساتوں زبانیں بلوچستان میں بولی جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان میں بلوچ کی 9زبانیں ہیں۔ یعنی پنجابی اور اردو بھی اب  بلوچوں کی  زبانیں بن چکی ہیں اگر چھلگری گاؤں پر نظر دوڑائیں یہاں بھی پانچ  زبانیں بولی جاتی ہیں۔ اور یہ زبانیں گاؤں میں صدیوں سے رائج ہیں۔
سرمایہ دارنہ نظام  کے چھلگری گاؤں پر اثرات 
گاؤں کے  لوگوں کی مختلف موضاجات میں زمین تقریباَ  پجاس ہزار ایکڑ  ہے۔ لیکن گاؤں کی آبادی چار ہزار نفوص پر مشتمل ہے لیکن آدھی آبادی  نا ن شبینہ کے لیے بھی  محتاج ہیں۔ ریل کی پٹری اور نیشنل ہاوے دونوں بین  الاقوامی شاہراہ جو سرمایہ داری  نظام کی ترقی کی ضمانت کہلاتیں ہیں۔ ہمارے گاؤں سے ۵۱ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، لوگ کہتے ہیں کہ ۰۵۱ سال سے انگریز حکمرانی کرتا رہا  اور  74سال سے پاکستانی سول اورفوجی اسٹیبلشمنٹ حکمرانی کر رہی ہے لیکن عوام  اج  معاشی ترقی   سے کوسوں دور ہیں۔ اور نہ ہی گاؤں کی تقدیر بدلی ہے۔ جس طرح اقبال نے کہا  خدا نے اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔  جسے نہ ہو غم خود اپنی حالت کو بدلنے کا۔گاؤں کے دہکیانوسی سماجی ساخت کا کسی نے کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ پاکستانی حکمرانوں کے ترقی کے دعوے، کاغذوں کی حد تک موجود  ہیں، یعنی  عوام کی جہالت اور بروزگاری میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اور گاؤں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ٓائی ہے۔گاؤں میں انسانی ارتقاء کے تمام تاریخی، سماجی طبقاقی رشتیوں کی باقیات نہ صرف موجود ہیں بلکہ پوری
 ٓاب و تاب کے ساتھ قائم ہیں۔ یعنی پرائمری کمیونزم سے لے کر غلامانہ، جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ دور کے سماجی معاشی رشتے پائے جاتے  ہیں یہاں سرداروں،  وڈیروں اور جاگیرداروں کے گھروں اور کھیتوں میں زر خرید غلام بھی کام کرتے تھے  اور ہیں۔ جو گاؤں کا سب سے کمزور، نادار اور بے سہارہ  طبقہ شمار ہوتا تھا۔ آج کل کے نئے دور میں بھی غلاموں کی نئی قسم موجود ہے یعنی گاؤں میں چھوٹے سرکاری ملازم کی شکل میں جو تنخواہ تو سرکار سے لیتا ہے اور خدمت بھوتار یعنی وڈیرے یا سردار کی کرتا  ہے۔اور کہیں کہیں تو (اس سوچ کے تحت کہ نوکری میں دلوائی خدمت بھی میری کرو )خدمت کے ساتھ ساتھ اس سے آدھی تنخواہ بھی لی جاتی ہے  گاؤں میں پرائمری کمیونزم کی باقیات کی مثال یہ ہے کہ باقی مری قبائل کی طرح چھلگری کے لوگوں کی بھی آب و اجداد کی جائداد زمینیں بھی مشترکہ تھیں اور ہیں جس کا حوالہ پاکستان کے مشہور سیکولر دانشور سبط حسن نے ا پنی کتاب  موسی سے  مارکس تک  کے صفحہ نمبر ۲۱  (۹۱)پر لکھا ہے کہ مری قبیلے کے ہر فرد کو چراگاہوں، کؤں اوچشموں پر مساوی

حق حاصل تھا۔ زمین پورے خاندان کی ملکیت ہوتی تھی۔ اور بہت سے ایسے علاقے بھی ہیں جن میں زمین پورے قبیلے کی مشترکہ ملکیت ہوتی تھی۔  اسی طرح چھلگری گاؤں میں  ۱۲ صدی کے شروع تک بھی ۲۲ ھزار ایکڑ زمین قبائل کی مشترکہ تھی۔ جو کہ راقم اور دوستوں کی مشترکہ دس سالہ جدوجہد کے بعد  ۵۰۰۲ میں ہر خاندان  میں تقسیم کروانے میں کامیابی حاصل ہوئی۔یہ کامیابی چھلگری کے نوجوانوں کی محنت کا نتیجہ ہے۔  راقم کی سربراہی میں گاوئں میں فرینڈز ڈیولپمنٹ آرگینائزیشن  کے نام سے نوجوانوں کی تیظیم  کا قیام ۵۹۹۱؁  میں عمل میں لایا گیا  جس کے بعد جرگہ  بلایا گیا جس کی باقاعدہ  وڈیو  فلم بھی بنائی گئی تھی۔ جس میں گاؤں کے اہم مسائل اور پرا نی قبائلی رسومات  کے ساتھ ساتھ ۲۲ ھزار ایکڑ زمیں کی تقسیم کو بھی حل کروایا گیا جو کہ صدیوں سے متناضہ  چلا ارہا تھا۔
 لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ چھلگری میں طبقات موجود نہیں ہیں۔گاؤں میں قبائلی رشتوں کے ساتھ ساتھ جاگیردارانہ سماجی رشتے بڑی مضبوتی کے ساتھ پائے جاتے  ہیں۔جس طرح عظیم  فلاسفراور سوشل سائنسدان کارل مارکس کے بقول:  جب  انسان  سماج ترقی کے کسی ایسے مرحلے میں پہنچتا ہے، جہاں وہ کسی بھی خاص سماجی معاشی ڈھانچے میں خالصتا  اسی سماج کے پیداواری رشتوں  اور پیداواری تعلقات  میں موجود نہیں رہ سکتا، بلکہ بیک وقت وہ سابقہ،موجود ہ اور آنے والی  سماجی معاشی ڈھانچوں کے پیداواری رشتوں اور پیداواری تعلقات کے ساتھ ساتھ ٓانے والے سماجی نظام کے رشتوں کے جراثیم کو ساتھ لے کر چلتا ہے
  چھلگری میں بھی سابقہ سماجوں کے پیداواری رشتے اور سماجی پیداواری  تعلقات (یعنی  غلام اور آقا  )کے رشتوں ساتھ ساتھ سرمایہ داری سماج کے پیداواری رشتے  اور پیداواری تعلقات  ٓاہستہ ٓاہستہ پنپنا شروع کر رہے  ہیں۔ یعنی گاؤں میں غریبوں کی محنت مزدوری  اب  بیگار یا حشر کی بجائے رو پوں کے عیوض شروع ہوئی ہے،گاؤں میں کسانوں نے محنت مزدوری پیسوں کے بدلے  شروع کر د ی ہے گاؤں میں پہلی سائیکل۰۶۹۱ میں ٓائی۔اس کے علاوہ گاؤں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر ۰۶۹۱ میں ایک بس بھی ہر دوسرے دن گزرنا  شروع ہوئی۔ اس سے پہلے  لوگ  اپنی سواری یا سامان ٹرانسپورٹ کیلیے  اونٹ، گدھے، گھوڑے اور بیل گاڑی کا استعمال کرتے تھے۔  ۴۷۹۱  میں گاؤں میں پہلی موٹرسائیکل ٓائی، یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ہمارے گاؤں میں ۶۴۹۱سے دو لوگ ریاست قلات کی حکومت میں پارلیمانی یعنی دارلعوام کے ممبر بھی تھے۔ لیکن گاؤں میں آج بھی ان کی اس اہم حثیت  سے بہت  کم  لوگ واقف  ہیں۔ گو کہ ان میں سے ایک راقم کے نانا میر جھنڈا خان چھلگری تھے۔ لیکن راقم کو بھی یہ معلومات خان میر احمد یار خان کی کتاب  پڑھنے سے حاصل ہوئی ہے۔ دوسرا ممبر مولوی  ھادی بخش تھے۔ لیکن گاؤں میں ان کی کارگزاری کے بارے میں بھی لوگوں کو علم نہیں تھا۔
 ۰۷ کی دہائی  کو گاؤں میں کسی حد تک سماجی شعور اور انقلابی جزبہ بیدار کرنے کی دہائی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی  ۱۷۹۱ میں ڈاکٹر عبدلحئی  بلوچ کا بطور قومی اسمبلی کے امیدوار ببنا اور نیپ کا ان کو پارٹی ٹکٹ دینا اور پھر خان ٓاف قلات کے بھائی پرنس محی دین کو قومی اسمبلی کی نشست پر شکست دینا جو کہ بڑی  تاریخی فتح تھی کہ والی قلات، خان صاحب کے بھائی کو ایک غریب آدمی سے شکست ہو گئی۔ لیکن ذولفقار علی بھٹو نے ۶۰ مارچ ۲۷۹۱ کو بلوچستان اور اس وقت کے سرحد کے گورنروں کو ہٹا دیا او ر بلوچستان کی ٓائینی حکومت کو  ٓائین کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں بر طرف کر دیا۔ اور سرحد کی حکومت نے  بھی احتجاجا  استعفی دے دیا۔ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کی حکومت ختم  ہوتے ہی بلوچستان میں بھٹو نے فوجی آپریشن شروع کروا  دیا۔جس سے  بلوچستان میں قتل و غارت  جو ۳۷۹۱ سے شرع ہو کر  ۷۷۹۱ تک بھٹو کی حکومت کے خاتمے تک  جاری  رہی۔بلوچ اصل میں اپنے  بنیادی حقوق کی جنگ لڑ رہے تھے۔ جبکہ اقتدار کے اصل مالک جو کہ ہمیشہ فوج اور بیوروکریسی تھی اور آج بھی ہے نے لوگوں کو بنیادی حقوق جو اس وقت ۳۷۹۱ کے آئین کے کتاب میں کاغذ کی صورت میں لکھے ہوئے ہیں۔لیکن عملا کچھ بھی نیہں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس آئین کے خالق  جناب حفیظ پیرزادہ خود کہتے ہیں“کہ یہ آئین مردہ گھوڑا بن چکا ہے“۔لیکن ہم جیسے بلوچوں نے اب بھی اس آئین سے اپنے حقوق لینے کی آس لگائی اور مثبت توقع رکھی ہوئی ہے۔لیکن  تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسلام آباد  کے  ملٹری اور سول بیوروکریسی نے چھوٹے صوبوں کو حقوق نہ دینے پر تلی ہے  جس کے بارے میں معروف  شاعرحبیب جالب  لکھتے ہیں:
 محبت گولیوں سے بو رہے ہو،       وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو، 
گمان تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے       یقین مجھ کو کہ منزل کھو  رہے ہو۔
نیشنل عوامی پارٹی  (نیپ)کی جانب سے  ا س  وقت چار ممبر قومی اسمبلی (ایم این اے) کے ممبران تھے جن میں ڈاکٹر عبدالحئی  بلوچ جن کا تعلق چھلگری گاؤں سے   ہے۔ نواب خیر بخش مری  اور  اس  ان کی ساس جو نیفر موسی (خواتین مخصوص نشست سے) اور میر غوث بخش بزنجو، جنھوں نے اپنی ساری  زندگی بلوچستان کے عوام سے عشق میں گزاری دی۔
 اگر  چھلگری گاؤں کا تجزیہ کیا جائے تو گاؤں میں انگریز آیااور نہ ہی اس نے کوئی کارخانہ  لگایا۔ اور نہ ہی دیسی حکمران نے کوئی کارخانہ لگوانے کی زحمت کی۔اور نہ ہی ہمارے سماجی بندہنوں نے ہمیں گاؤں چھوڑکر کہی اور جا بسنے کی اجازت دی  اور نہ ہی ان حالات سے بغاوت کرنے کا حوصلہ  پیدا ہوا ،اس طرح  ہم اپنی  روایتوں کے اج بھی غلام بنے ہوئے ہیں۔پسماندہ رہ کر  اورغلامی سے بھی بدتر زندگی گزارتے آ رہے ہیں۔ (۳۲) کارل مارکس نے برصغیر کے گاؤں  کے سماجی رشتوں کے بارے کہا  تھا کہ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بظاہر سادہ، بے ضرر اور دلکش جمیتعیں مشرقی استبداد کی ہمیشہ ٹھوس بنیادیں رہی ہیں انہوں نے انسانی ذہن کو بہت ہی چھوٹے چھوٹے دائروں میں محدود کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ توہمات کے بے چوں چراں شکار ہو گئے۔اور روایتی ضابطوں کے غلام بن گئے۔ہمیں یہ بھی یاد
 رکھنا  چاہیے، ان چھوٹی چھوٹی بستیوں میں ذات پات کی تفریق اور غلامی کا زہر  یہاں تک سراہیت کر گیا ہے کہ انسان حالات کا ٓاقا  بنے کی بجائے خود ان کا غلام  بنا ہوا ہے۔ خودکار سماجی کیفیت ناقابل تغیرتقدیر میں بدل گئی۔اس جدید دور میں بھی کیا یہ زندگی ہے کہ جہان لوگوں پینے کے پانی کی کوئی سہولت نہ ہو، جہاں لوگ پختہ سڑک نام سے واقف نہ ہوں،بجلی کی روشنی زندگی میں نہ دیکھی ہو، علاج کے لیے ہسپتال جیسی سہولت  سے  نہ  واقف ہوں جہاں آج بھی حاملہ خواتین کو بچے کی پیدائش کی تکلیف سے دو سے پانچ گھنٹے  قبل بیل گاڑی میں سخت جگہ میں بٹھا کر بیل گاڑی کو  بیلوں کی مدد سے نا ہموار کھیتوں میں دوڑایا جاتا ہے۔ تاکہ سخت جھٹکے لگنے سے حاملہ خاتون کا بچہ زندہ یا مردہ  پیٹ سے نکل ائے۔ یہ پرانے دور ۴ ۱  ویں یا ۵۱ ویں صدی کی کہانی یا قصے نہیں ہیں بلک ۱۲ویں صدی کی حقیقتیں ہیں جنہیں راقم  نے اپنی انکھوں سے دیکھا ہے راقم  آج بھی گاؤں کے کچھ ایسے جوانوں کو جانتا ہے جو اس پروسس سے گزر کر زندہ بچ گئے ہیں۔اور وہ مائیں بھی  جو اس غضبناک طریقہ کار سے گزر کر خود بھی زندہ ھیں اور ان کے بچے بھی سلامت پیدا ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جانکاری  عذاب ہے  چھلگری کے اندر مندرجہ  بالا ان حالات کو دیکھ کر باشعورلوگ نہ صرف پریشان ہوتے ہیں بلکہ معاشرتی نا انصافی سے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے بغاوت کرنے یراتر آتے ہیں۔جس طرح علامہ اقبال نے کہا کہ
  جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی 
۔اس کھیت کے ہر خوئشہ گندم کو جلا دو۔  
گاؤں کی  بغاوت کے ْقصے بہت ہیں  جن کو کسی تحریر میں سعمین تک پہنچانے کی کوشش کروں گا۔ بغاوت کرنا قبائلی معاشروں  میں ا تنا آسان کام نہں تھااور نہ ہی آج کل آسان ہے۔ لیکن طبقاتی معاشرں میں طبقاتی تضادات ہونا لازمی جز ہے۔اس لیے طبقاتی معاشروں میں ان تضادات کا وجود اور ان کے درمیان تصا دم کا ہونا زندگی کے معمو ل کا حصہ ہیں۔  فیدرخ اینگلز نے قبائلی معاشروں کے بارے اس طرح لکھا ہے(۴۲)۔“ معاشرے کے حالات زیست میں ایک طرح کی مساوات پائی جاتی تھی۔اور خاندانوں کے سرہراہوں کے درمیان سماجی مرتبے کی برابری ملتی تھی۔ کم سے کم سماجی طبقے نا پید تھے۔یہ صورت بعد میں مہذب قوموں کی زرعی  بستیو ں میں بھی قائم رہی۔ایسی ہر ایک جمعیت میں ابتدا ہی سے بعض ایسے مشترکہ مفادات مو جود  ہوتے تھے  جنکے تحفظ کی  ذ مہ داری افراد کے سپرد ہوتی تھی۔ البتہ پوری جمعیت کی نگرانی میں مثلا آپس کے جھگڑوں کا چکانا، اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والوں کی حرکتوں کی روک تھام، پانی کی فراہمی کی دیکھ بھال، بل خصوص گرم ملکوں میں  اور بالکل ابتدائی دور میں بذہبی رسومات کی  ادائیگی“۔
  اس طرح  چھلگری کا بھی قبا ئلی معاشروں کے  قدیم مہذب قوموں کی ان  زرعی بستوں میں شمار ہو تا تھا۔جن میں کم سے کم سماجی طبقے موجود  تھے۔اور ان طبقوں کے درمیان طبقاتی تضادات بھی موجود تھے۔اور بغاوت کا تصور اور عمل آتا ہی طبقاتی معاشروں میں ہے۔ معاشرے میں سماجی اور معاشی نا انصافیوں کے خلاف، فرد، گروہ  اور پارٹیاں  پرچم یا الم بلند کرتی ہیں۔
طبقاتی نظاموں والے معاشروں میں حاکم اور محکوم، زبردست اور زیر دست، امیر اور غریب کے مابین فرق ہمیشہ پایا جاتا ہے۔لیکن نام نہاد ترقی پسندانقلابیوں کو  یہ فرق نظر نہیں آ رہا تھا۔ جس کی وجہ سے انھوں نے اپنے گروہی مفادات کی خاطر معاشرے کے اندر پائے جانے والے تضادات کو سمجھنے کی بجائے ا پنے ہی معاشرے  کے ترقی پسند طبقات کے سامنے رکاوٹ بننے کے ساتھ ساتھ صرف یہ کہہ کر حیقت کو جھٹلاتے رہے کہ بلوچ معاشرے میں کوئی طبقاتی تضاد نہیں ہے سب ایک قوم ہیں۔  مڈل کلاس کی خطرناک ذہنیت ہے۔ جس نے معاشرے کی ترقی پسند سوچ کو  نقصان دیا ہے۔  اصل میں سرداروں نوابوں، جاگیرداروں اور مفادپرست مڈ ل کلا س نے ریاستی مشینری کے ساتھ مل کر ہماری ہمارے معاشرے کوپسماندہ رکھنے میں اپنا انتہائی منفی کردار ادا کیا ہے۔ہمارے سماج میں درمیانہ جو سب سے اہم طبقہ ہے جس نے ہمیشہ اپنے چھوٹے مفادات کی خاطر بڑے جاگیردار، سردار، نواب، یعنی بالا دست طبقے کاکا ساتھ دیا ہے۔اس طبقے نے مظلوم عوام اور  ریاستی اداروں کے نماءئندوں اور بالا دستوں طبقے کی طبقاتی جنگ میں مظلوم عوام کا ساتھ دینے کی بجائے، ڈرانے دھمکانے اور لالچ دے کر  انہیں زیر کرنے  کی کوئی کسر چھوڑی اور ہمیشہ بالا دست طبقے کی صفت و ثناء میں گزارتی ہے۔
اس لے کہتے ہیں کہ مڈل کلاس بلحاظ طبقہ مفاد پرست  اور متحرک  ہے۔ کیونکہ وہ ہمیشہ اوپر جانے کی تگ ردو میں مصروف عمل رہتا ہے  وہ  ہمیشہ ایک خوف ہوتا ہے کہ کہیں حالات اسے واپس نچلے طبقے کی طرف نہ لے جائیں۔ اس خوف کی  بنیاد ی  وجہ اس کی کمزور اور غیر  یقینی  اور محدود  ذوائع  آمدن اور معاشرے میں بڑہتی ہوئی مہنگائی، تیز رفتار بڑھتی ہوئی روز مرہ کی نئی ضروریات زندگی کی سہولیات  ہیں۔مثلا۔بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوانا، سفری سہولیات  میں  ذاتی سواری کی پریشانی، یعنی  لوکل بس  یا ویگن میں سفر میں عیار محسوس کرنا شروع کرتا ہے۔ یہ سوچتا ہے کہ یہ ذرائع سفر تو صرف غریب عوام کے لیے ہوتی ہے وغیر۔ یہاں کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ جدید سہولیات سے استعفادہ  حاصل کرنا کوہی غلط ہے یا ناجائز کام ہے۔یا مڈل کلاس کو اس کا حق نہیں دینا چاہیے۔  جدید سہولیات سے آراستہ ہونا ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہر ی کو وہ بنیادی حقوق جو اس نے آئین پاکستان میں دینے کا عہد بلکہ معاہدہ کیا ہے۔جو ۳۷۹۱ کے پاکستان آئین (۵۲) میں آرٹیکل آٹھ سے لے کر آرٹیکل اٹھائیس تک لکھے  ہوئے موجود  ضرور ہیں۔ لیکن آج تک ریاست اپنے عوام کو یہ حقوق دینے سے قاصر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عوام میں ان حقوق کو لینے کی سکت نہیں ہے۔  طاقت نہ ہونے کی وجہ شعور کی کمی ہے۔ راقبم کو میر غوث نخش بزنجو کی مثال یاد آتی ہے۔ صاحب کے استقبال کے لیے کوٹھ خان پور جمالی نواب جمالی کے بیٹھک میں بہت  ہی عمدہ اور اچھے قالین بچھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ مزدرر  بیٹھتے  وقت قالینوں سے دور جا کر زمیں پر بیٹھ گے۔ بزنجو صاحب نے اسرار کیا کہ مزدور ٓاگے آکر  ان قالینوں پر بیٹھیں۔ مگر مزدورقالینوں پر بیٹھنے سے انکاری تھے کیونکہ ان کے پہنے ہوئے کپڑے میلے تھے اس لیے آگے ان قالینوں پر نہیں بیٹھنا چاہتے تھے۔ جس پر بزنجو  صاحب ان سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔ کیاآپ کو پتہ ہے کہ یہ قالین آپ مزدوروں نے ہی بنایا ہے؟۔ سب نے کہا جی ہاں۔ اس میں آپ کی  محنت
شامل ہے
۔ لیکن آج آپ اس پربیٹھنے کی جرت بھی نہیں کرتے ہیں؟ آخر کیوں؟  یہ انسانی معاشرے کے ساتھ بھی طرح کی ٹریجیڈی ہے چند لوگوں نے دنیا کے وسائل اور دولت پر قبضہ کیا ہوا ہے۔اور اکثریت آبادی محنت کش ہے جو دو وقت کی روتی کیلے محروم ہے۔حالانکہ دولت ٓاپ کماتے ہیں ملوں کار خانوں میں دن رات محنت کرتے ہیں تب کہیں جا کر یہ کالین یا کپڑا تیار ہوتا ہے۔ لیکن آپ بد حال ہیں۔آپ میں ہمت نہیں ہے کہ سرمایہ داروں اپنے جائز حقوق حاصل کر سکیں اور سرمایہ داروں میں حیااور خیرت ء نہیں ہے کہ آپکو  ٓپ کے جائز حقوق دیں۔ اور یہ تسلیم کریں کہ اصل قوت آپ مزدور ہیں جو ان چیزروں  اپنی  شعوری محنت سے ان میں جان ڈال کران چیزروں کی اہمیت اور افدیت بڑھا کرقابل استعمال بنا کر اس کے اصل ا موجدبن جاتے ہیں۔ لیکن سرمای دار  ٓپ کے ساتھ انصافن ہیں کر ہا ہے اسلیے آپ غریب  رہ
 جاتے ہیں اور اپنی بنائی ہوئی چیزوں کے استعمال سے بھی ڈرتے ہیں۔یہ دنیا بڑی ظالم ہے ا ٓپ مزدور  اپنے اندر  اتحاد اور جرت پیدا کریں اور اپنے ساتھ طلباء کسان، قوم دوست، وطن دوست طبقات کو ساتھ ملا کر اس ملک کے ظالم قوتوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ جیسے کہ آپ کی ہمسایہ ملک افغانستان میں انقلاب آیا آپ بھی انقلاب لا کر اس ظالم و جابر فوجی جرنیل کواقتدار سے نکا ل باہر کر سکتے 
ہیں اور ملک میں ایک قومی جمہوری انقلاب لا سکتے ہیں۔میر غوث بخش بزنجو کے جزبات دیکھ کر سوچاکہ واقعی جان کاری عذاب ہے۔جی ہاں جانکاری عذاب اور سب سے بڑی ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ حمید بلوچ شہد، مجید بلوچ شہید،نذیر عباسی، میر بالاچ مری، میر مولابخش دشتی،  اور حسن ناصر  اور دنیا کے  دوسرے کامریڈ شہدا، غرض کہ سقراط کو بھی اسی جانکاری نے زہر کا پیالہ پینے پر اکسایا۔ اور اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ  پیش کرکے ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔لیکن تاریخ میں ان کا نام مہذب معاشروں میں  ذمہدار انسان کی حیثیت سے ہمیشہ ذندہ  و پائندہ رہے گا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot