جمعہ، 7 جولائی، 2023

                                                  حقیقی جمہوریت کے لیے خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت ناگزیر ہے

                                                           اس وقت کے وزیر اعلی نواب ثنااللہ زہری صوبے
 کی تاریخ کی پہلی  منتخب خاتون سپیکر  ر احیلہ حمید   درانی کو سپیکر کی سیٹ پر بٹھا رہے ہیں                                                                                       
                                                                 بلوچستان کی 49فیصد آبادی کو حقیقی طور پر با اختیار بنانے کے لیے
کی سیاسی عمل میں بطور ووٹر اور سیاسی رہنما کے شرکت کو یقینی بنانا وقت کی اولین ضرورت ہے


ہماری آج کی رپورٹ میں بلوچستان میں خواتین کے بطور ووٹر اندراج کے لیے الیکشن کمیشن اف پاکستان کے متحرک خواتین سیاسی سماجی رہنماوں کے ساتھ مل کر عملی اقدمات کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے



                                                صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان، شریف اللہ 
،الیکشن کمیشن کو اب اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے انتخابی حلقوں کے انتخابی نتائج کو منسوخ قرار دے سکتا ہے جہاں خواتین کا ٹرن آوٹ 10 فیصد یا اس سے کم ہو
گزشتہ دنوں خواتین کے ووٹ کے اندارج  کی اہمت کو اجاگر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن اف پاکستان کے صوبائی دفتر میں اعلی سطحی اجلاس صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان کی صدارت میں منعقد ہوا،اجلاس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان، شریف اللہ نے بتایا کہ انتخابی عمل خواتین کی شرکت کے بغیر نامکمل ہے، بلوچستان کے چھ اضلاع میں خواتین کے شناختی کارڈز بنوانے ان کے ووٹ اندارج کی مہم کو صوبے کے 6اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے، الیکشن کمیشن آف پاکستان خواتین کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کیلئے پر عزم ہے ان کاکہنا تھا کہ اس وقت بلوچستان کے دو اضلاع کوئٹہ اور پشین میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ اندراج کی مہم جاری ہے اور اب اس مہم کو بلوچستان کے مزید چھ اضلاع قلات، چاغی، نوشکی، خضدار، سبی اور واشک میں بھی جلد شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو ووٹ کے اندراج کے ساتھ ساتھ ان میں ووٹ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اپنا حق رائے دہی سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ اجلاس میں جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان عبدالقیوم شنواری، جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان ایڈمن طاہر منصور خان، ڈپٹی ڈائریکٹر الیکشن کمیشن سید احسان اللہ شاہ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایم سی او الیکشن کمیشن غوث بخش،عدیل احمد اسسٹنٹ الیکشن کمیشن، سی پی ڈی کے سی ای او نصراللہ بڑیچ، یوتھ کے صدر حمید اللہ نے شرکت کی، واضع رہے کہ الیکشن کمیشن، نادرا، اور سول سوسائٹی کے اشتراک سے کوئٹہ اور پشین میں اب تک اس مہم  کے تحت 9156 خواتین کے شناختی کا ڑد بنائے گئے ہیں اور انکا انتخابی فہرستوں میں اندراج کیا گیا ہے۔جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر بلوچستان الیکشنز عبدالقیوم شنواری،نے بتایاکہ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات میں بطور ووٹر خواتین کی شرکت اب  پہلے سے زیادہ آسان اور بہتر ہو گئی ہے،الیکشن کمیشن کو اب اختیار حاصل ہے کہ وہ ایسے انتخابی حلقوں کے انتخابی نتائج کو منسوخ قرار دے سکتا ہے جہاں خواتین کا ٹرن آوٹ 10 فیصد یا اس سے کم ہو اور ایسے کسی بھی معاہدے پر ضروری کارروائی کر سکتا ہے جس کے تحت خواتین کو زبردستی ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہو۔ انتخابات میں خواتین کی شمولیت بہتر بنانے کیلئے یہ ایک بڑا اور خوش آئند اقدام ہے اس کے علاوہ ووٹ اندراج کا طریقہ کار اب بالکل آسان بنا دیا گیا ہے جس کے تحت نادرا کو کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (سی این آئی سی) بنوانے کی درخواست دیتے وقت ساتھ ہی
پ اپنے ووٹ کا اندراج بھی کروا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ آیا آپ اپنے“موجودہ”پتہ پر ووٹ درج کرانا چاہتے ہیں یا“مستقل”پتہ
پر،الیکشنز ایکٹ 2017 کے درج ذیل سیکشن خواتین ووٹرز سے متعلق ہیں:.9 الیکشن کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی انتخاب کو کالعدم قرار دے سکتا ہے – (1) ایکٹ ہذا میں شامل کسی بھی بات سے قطع نظر، اگر ریکارڈ کی کے  معانیہ کے بعد، الیکشن کمیشن مطمئن ہو کہ سنگین بے قاعدگیوں یا ایکٹ ہذا کی دفعات یا قواعد کی خلاف ورزیوں، جن میں خواتین کو ووٹ دینے سے روکنے کے معاہدے پر عملدرآمد
 بھی شامل ہے، کی بنائپر ایک یا زائد پولنگ سٹیشنوں یا پورے انتخابی حلقے کے انتخابی نتائج مادی طور پر متاثر ہوئے ہیں، تو وہ اس کے مطابق اعلامیہ جاری کرے گا اور متعلقہ پولنگ سٹیشن یا پولنگ  سٹیشنوں یا پورے انتخابی حلقے، جو بھی معاملہ ہو، کے ووٹرز سے کہے گا کہ وہ ضمنی انتخابات کے لئے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق دوبارہ اپنا ووٹ دیں۔وضاحت اگر خواتین ووٹرز کا ٹرن اوٹ، انتخابی حلقے میں ڈالے گئے کل ووٹوں کے دس فیصد سے کم ہو تو الیکشن کمیشن یہ فرض کر سکتا ہے کہ خواتین ووٹرز کو کسی معاہدے کے تحت اپنا ووٹ ڈالنے سے روکا گیا ہے۔ خواتین کے ووٹ اندراج کے لئے خصوصی اقدامات – (1) الیکشن کمیشن سالانہ بنیاد پرقومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے ہر حلقے میں اندراج یافتہ مرد اور خواتین ووٹرز کے بارے میں الگ الگ ڈیٹا یا معلومات شائع کرے گا جس میں مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں فرق کو بھی نمایاں کیا جائے گا۔(2) جس حلقے میں ذیلی سیکشن (1) کے تحت صنف کے لحاظ سے الگ الگ ڈیٹا کے مطابق مرد اور خواتین ووٹرز کی تعداد میں فرق دس فیصد سے زیادہ ہو، وہاں الیکشن

کمیشن اس فرق کو کم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرے گا۔(3) ذیلی سیکشن (2)میں جن اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی جانب سے اس حلقے میں خواتین کو قومی شناختی کارڈ کا اجرائاور الیکشن کمیشن کی جانب سے متعلقہ انتخابی فہرستوں میں ان کے بطور ووٹر اندراج کو تیز کرنے کے اقدامات شامل ہوں گے۔.91 خواتین ووٹرز کے ٹرن اوٹ کا بیان – (1) پریزائیڈنگ  افسر ووٹرز کا  صنف کے لحاظ سے الگ الگ بیان تیار کرے گا جس میں پولنگ سٹیشن پر مرد اور خواتین ووٹرز کی کل تعداد اور مرد اور خواتین ووٹرز کی طرف سے ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد درج ہو گی۔(2) پریزائیڈنگ افسر، ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو نتائج ارسال کرتے وقت ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو ووٹرز کے بارے میں صنف کے لحاظ سے الگ الگ بیان بھجوائے گا۔(3) پریزائیڈنگ افسر، انتخابات والے دن پولنگ کے دوران یا اس کے بعد کسی بھی مرحلے پر، ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو ایک خصوصی رپورٹ بھجوائے گا کہ آیا وہ بوجوہ اس بات پر یقین رکھتا/ رکھتی ہے کہ کسی کھلے عام یا خفیہ معاہدے کی بنیاد پر خواتین ووٹرز کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکا گیا۔ ‘سی پی ڈی کے نصراللہ بڑیچ نے بتایا کہ ویمن اِن الیکشنز’ویب سائٹ پاک ووٹر پورٹل کا حصہ ہے۔‘پاک ووٹر’پورٹل، سی پی ڈی آئی اور آئی ایف ای ایس نے مل کر تیار کی ہے (جس کا آغاز 2013 کے عام انتخابات سے قبل کیا گیا) اور یہ پہلا آن لائن فورم ہے جہاں پاکستان میں ہونے والے انتخابات کے بارے میں غیرجانبدارانہ معلومات فراہم کی گئی ہیں اور اس بنائپر یہ پاکستان بھر میں ہونے والے انتخابات اور انتخابی عمل کے بارے میں ایک بااعتماد معلوماتی ذریعہ کا کام دیتی ہے۔ اس کے علاوہ اس پورٹل کی تیاری  میں ہر عمر کے افراد اور آبادی کے تمام طبقات کی ضرورتوں کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کی بدولت وہ بآسانی تمام معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔مثلاً معذور افراد اپنی سہولت کے مطابق ویب سائٹ کے مختلف حصوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں، ٹیکسٹ کا سائز بڑھا سکتے ہیں یا بیک گراونڈ کا رنگ تبدیل کر سکتے ہیں تاکہ وہ ویب پیج پر دیا گیا مواد آسانی سے پڑھ سکیں۔‘ویمن اِن الیکشنز’میں پاکستان میں ہونے والے انتخابات میں خواتین سے متعلق اعدادوشمار، منتخب حکومت کے تمام مراحل میں خواتین کے لئے مخصوص کوٹہ کی معلومات، جمہوری عمل میں خواتین کی شمولیت کی اہمیت پر پیغامات اور خاص طور پر خواتین ووٹرز کے لئے معلومات بھی دی گئی ہیں۔ پورٹل پر وہ تمام ضروری معلومات پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر دی گئی ہیں جن کی ضرورت خواتین کو اپنا قومی شناختی کارڈ بنواتے وقت اور انتخابات والے دن ووٹ دیتے وقت پیش آ سکتی ہے۔
 

                                                         ٹو ڈیز وومن کی چیئرپرسن ثنا درانی
عام انتخابات سے قبل 13 جولائی ووٹ اندراج، منتقلی یا کوائف کی درستگی کے لئے آخری تاریخ ہے. اپنا شناختی کارڈ نمبر 8300 پر بھیجیں اور ووٹ کی لومات حاصل کریں. ووٹ درج نہ ہونے یا کوائف میں غلطی کی صورت میں فوری متعلقہ ضلعی الیکشن کمشنر کے دفتر جائیں.

ٹو ڈیز وومن کی چیئرپرسن ثنا درانی نے بتایا کہ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے ٹوڈیز وومن آرگنائزیشن پچھلے کئی برسوں سے بلوچستان میں خواتین کے حقوق کی آواز کو بلند کرتی آرہی ہے اور سی آئی پی نیٹ ورک کے ممبر کی حیثیت سے خواتین افراد و خواتین باہمی معزوران خواجہ سرا کمیونٹی کی سیاسی عمل میں شمولیت کے حوالے سے اپنی کوشش جاری رکھے ہوے ہے سی آئی پی Ramp کے توسط سے ٹوڈیز وومن آرگنائزیشن نے کوئٹہ کی خواتیں کے لیے نہ صرف ووٹرز ایجوکیشن مہم شروع کی بلکہ خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت کی اہمیت کو عام کرنے کے لیے شعور و آگاہی کے لیے ریڈیو پروگرامز کرواے اس کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ مشاورتی اجلاس منعقد کرواے تا کہ کوئٹہ میں مقامی  حکومت کے انتخابات جلد کرانے کے لیے حکومت پر دباؤ بڑھایا جاسکے  ہماری اس مہم میں RAMP کے توسط سے لوگوں تک آگاہی کے سلسلے میں یہ آرٹیکل بھی شائع کیا جا رہا ہے تا کہ خواتین کی سیاسی شمولیت اور اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔


                         بی این پی کی سنٹرل کمیٹی کی ارکین کا پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ گروپ فوٹو

                                                                  کرامت اللہ خان
افراد باہمی معزوران  کے حقوق کے متحرک سماجی ورکر ہوسٹ آرگنائزیشن  کے سی ای اوکرامت اللہ خان نے بتایا کہ وومن باہمی معزوران کی سیاسی میدان میں شرکت بڑھانے کے لئے اب تک متعدد اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2017 میں, صنف اور معذوری کا ورکنگ گروپ بنایا، جو موجودہ انتخابات کے عمل سے متعلق قوانین میں ایسی ممکنہ ترامیم کرے گا جس سے معذورووٹروں، امیدواروں، انتخابات کے منتظمین، اور مبصرین کی حیثیت سے انتخابی عمل میں حصہ لینے کی ترغیب دے گا۔ امید ہے کہ ان اقدامات سے معذور خواتین مستقبل میں ملک کے انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے سکیں گی۔  معذور خواتین کو انتخابی عمل میں بہتر نمائندگی کی ضرورت ہے جب ہم انتخابی عمل میں معذور خواتین کی شمولیت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں ایک وسیع بحث ومباحثہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس میں انتخابات سے پہلے اور انتخاب کے دن سے متعلق انتظامات اور مصروفیات شامل ہیں۔ معذور خواتین کا انتخابات کے عمل میں شامل ہونے سے متعلق پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ معذور خواتین کو اپنے قومی شناختی کارڈ کے اجرائمیں حائل مشکلات کے حل کے ساتھ ساتھ ووٹر اندراج بھی کروانا ہوتا ہے۔ قومی شناختی کارڈ کے اجرائاور ووٹر رجسٹریشن کے لئے علیحدہ علیحدہ کاونٹرزکی اشد ضرورت ہے، جس میں معذار افراد کی ضرورت کے پیشِ نظرکم اونچائی والے پولنگ بوتھس کا قیام،محدب عدسہ، بڑے قلم، اورایسی سہولیات کی فراہمی جس میں معذورافراد کی ضروریات کے مطابق ترمیم شدہ پولنگ بوتھ پر میسر کیا جا سکے تاکہ معذور خواتین بھی اپنی انتخابات سے متعلقہ ذمہ داریوں کوبہتر انداز میں نبھا سکیں۔یہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ  ایک جامع حکمت عملی تیار کرے جس کا مقصد انتخابی عمل میں معذورافراد خصوصاً معذورخواتین کی شرکت کو یقینی بنایا جا ئے اور ان کی تعداد میں اضافہ ممکن ہو سکے۔ اس کے علاوہ، سیاسی جماعتوں کوبھی خصوصی و خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہےء۔تا کہ معذور افراد بھی ان سیاسی جماعتوں کے مرکزی کرداروں میں شامل ہوں۔نہ کہ انہیں کسی ایسی چیز کے لئے نظرانداز کیا جائیجس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہوں یا حادثاتی طور پر اس کا شکار ہو چکے ہوں۔ منتخب پولنگ اسٹیشنوں کے آڈٹ کرانے کا عمل جس میں معذور افراد کی سیاسی میدان میں شراکت کے راستے میں ائل      پولنگ سے متعلق کاوٹوں سے نجات پانے    

صلاحیت اور مہارت ہونے کے باوجود بھی قیادت کے عہدوں تک پہنچنے سے محروم رہیں                              ۔ 

  انتخابی عمل خواتین کی شرکت کے بغیر نامکمل ہے، بلوچستان کے چھ اضلاع میں خواتین کے شناختی کارڈز بنوانے ان کے ووٹ اندارج کی مہم کو صوبے کے 6اضلاع تک توسیع دی جارہی ہے

      الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت انتخابات میں بطور ووٹر خواتین کی شرکت اب  پہلے سے زیادہ آسان اور بہتر ہو گئی ہے

کے لئے، غیر تسلی بخش انتظامات والے پولنگ اسٹیشن کو نااہل قرار دیئے جانے سے بھی اس امر میں

 خاطر خواہ بہتری  ممکن ہے۔ اور عالمی،،قومی اور صوبائی سطحوں پر خواتین میں اب یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ،حکومت، تعلیم، انجینئرنگ، صحت وغیرہ جیسے شعبوں کی قیادت میں ان کی نمائندگی بھی موجود ہے۔ خواتین اب ان تمام روایتی حدود سے آگے نکلنے کے لئے پرعزم ہیں جن کی وجہ سے وہ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot