خون دو....خون کی کمی کے شکار بچوں کو جینے دو“
ون دینے میں کوئی قباحت نہیں بلکہ اس کے بہت سارے فوائد ہیں ،کوئی بھی صحت مند انسان ہر تین ماہ بعد خون کا عطیہ
دے سکتا ہے
بلوچستان میں 73فیصد سے زائد لڑکیاں خون کی کمی کا شکار ہیں جبکہ صوبے کی شادی شدہ خواتین میں یہ شرح 61.3فیصد ہے
بلوچستان میں غذائی قلت کا مسئلہ بھی دن بدن گھمبیر ہورہا ہے ہر سال غذائی قلت کا شکار52فیصد بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں
آئرن، ہیمو گلوبن بنانے کے لئے درکار ضروری اجزا میں شامل ہے ادھر جسم میں آئرن کی کمی ہوئی، ادھر ہیمو گلوبن کی مقدار بھی کم ہو گئی
صحت مند خون کی منتقلی کے لئے کوئٹہ میں2004ءسے جرمن حکومت کی معاونت سے قائم ہونے والا ریجنل بلڈ سینٹر فعال متحرک کردار ادا کررہا ہے
خون عطیہ کرنے کے عالمی دن کی مناسبت سے بلوچستان کے ممتاز طبی ماہرین اور مختلف شخصیات کی بات چیت پر مشتمل خصوصی رپورٹ
حاملہ خواتین کی خصوصی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے ، خون کی کمی سے دوچار ہونے والی خاتون کے ہاں جنم لینے والے بچے میں
خون کی کمی کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں ،دوران حمل آئرن کی کمی کے باعث بچے کی قبل از وقت پیدائش کا بھی خطرہ لاحق رہتا ہے
ہیمو گلوبن خون کے سرخ خلیوں پر موجود ایک پروٹین کا نام ہے جس کا کام پھیپھڑوں سے آکسیجن جذب کر کے اسے
جسم کے تمام حصوں تک پہنچانا ہے، خون کے عطیات دے کر تھیلسمیا کے مریض ہزاروں بچوں کو نئی زندگی دی اسکتی ہے
رپورٹ چوہدری امتیاز احمد
خون کے عطیات دینے کا عالمی دن ہر سال 14 جون کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن اس مقصد کے لیے بنایا جاتا ہے کہ خون کے ضرورت مندوں کے لیے محفوظ خون اور خون کی ضرورت کے بارے میں عالمی سطح پر بیداری پیدا کرنا،قومی صحت کے نظام میں رضاکارانہ، بلا معاوضہ خون کے عطیہ دہندگان کی اہم شراکت کو اجاگر کرنا، اور ، قومی انتقالِ خون کی خدمات، خون عطیہ کرنے والی تنظیموں کی مدد کرنا۔ ، اور دیگر غیر سرکاری تنظیمیں قومی اور مقامی مہموں کو تقویت دے کر رضاکارانہ خون عطیہ دہندگان کے پروگراموں کو مضبوط اور وسعت دی جاسکے ۔یہ دن رضاکارانہ، بلا معاوضہ خون کے عطیہ دہندگان سے خون جمع کرنے اور خون تک رسائی اور ان کی منتقلی کا انتظام کرنے کے لیے مناسب وسائل فراہم کرنے والی حکومتوں اور قومی صحت کے حکام سے مطالبہ کرنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ہر وہ شخص جسے خون کی ضرورت ہوتی ہے اسے محفوظ خون تک رسائی حاصل ہو، تمام ممالک کو رضاکارانہ، بلا معاوضہ خون عطیہ کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو باقاعدگی سے خون دیتے ہیں۔ خون کے عطیہ دہندگان کا ایک موثر پروگرام، جس کی خصوصیت آبادی کی وسیع اور فعال شرکت ہے، امن کے وقت کے ساتھ ساتھ ہنگامی حالات یا آفات کے دوران خون کی منتقلی کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے جب خون کی طلب میں اضافہ ہو یا جب خون کی مانگ میں اضافہ ہو تو رضاکارانہ طور پر خون کے عطیات دینے والوں کی تعداد کو بڑھانے کوششوں کو مزید تیزکرنے کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ عملی اقدمات اٹھانا ناگزیر ہوتا ہے
برطانیہ کی این ایچ ایس فاو ¿نڈیشن ٹرسٹ کے مطابق آئرن کی کمی سے منسلک اینیمیا خون میں سرخ خلیوں یا ہیمو گلوبن کا مطلوبہ مقدار سے کم ہونا ہے۔اینیمیا کا شکار کل خواتین میں سے نصف کا تعلق برصغیر کے خطے سے ہے۔ تاہم ان میں سے 88 فیصد خواتین حمل کے دوران اس کمی کا شکار ہوتی ہیں۔ اینیمیا کا شکار 45 فیصد خواتین کا تعلق پاکستان سے بتایا گیا ہے ۔قومی غذائی سروے کے مطابق بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں خواتین اور بچے ضروری غذا سے محروم ہیں جو بنیادی طور پر خون میں کمی کا سبب بن رہی ہے بلوچستان میں 73 فیصد سے زائد نابالغ لڑکیوں میں خون کی کمی کا انکشاف ہوا ہے جبکہ شادی شدہ خواتین میں یہ تعداد 61.3 فیصد ہے۔۔قومی غذائی سروے 2018 کے نتائج کے مطابق، بلوچستان میں 18125 گھروں سے حاصل کی گئی معلومات کی بنیاد پر ماو ¿ں اور نابالغ بچوں سے متعلق رپورٹ مرتب کی گی نیوٹریشن سیل بلوچستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد پانیزئی کہتے ہیں کہ صوبے میں غذائیت کی صورتحال تشویشناک ہے جس کے باعث 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور ہر سال 50 سے 52 فیصد غذایت کی کمی کے شکار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، سروے رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ 18 فیصد بچے لاغرپیدا ہوتے ہیں
جو ذہنی طور پر انتہائی کمزور اور تعلیمی لحاظ سے بہتر کارکردگی دکھانے سے قاصر رہتے ہیں،سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں تقریبا 50 فیصد کے قریب پانچ سال سے کم عمر کے بچے قد کی کمی یا نامکمل نشوونما کا شکار ہیں، 5 سال سے کم 30 فیصد بچوں کا وزن کم جبکہ 20 فیصد بچوں کا وزن ضرورت سے زیادہ ہے، عالمی یوم بلیڈ ڈونیشن کے موقع پر آج کی رپورٹ میں تھیلسمیہ کے مرض میں خطر ناک حد تک اضافے کی وجوہات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جارہی ہے
ریجنل بلڈ سینٹر میںصر ف صحت مندانسانوں ہی سے خون کے عطیات لئے جاتے ہیں ، عطیہ کئے گئے ہر خون کے پانچ ضروری ٹیسٹ کئے جاتے ہیں اور اس کے بعد ہی خون کا عطیہ لیا جاتا ہے ، ڈاکٹرعبدالصمد ندیم
پروفیسر ڈاکٹر صمد ندیم شیخ سابق ڈائریکٹرریجنل بلیڈ سنٹر کا کہنا ہے کہ خون کے عطیات دے کر تھیلسیمہ کے مریض ہزاروں بچوں کو نئی زندگی دی جاسکتی ہے،18 سے50 سال تک کی عمر کا ہرصحت مند انسان تین ماہ بعد خون کا عطیہ دے سکتا ہے الحمد اللہ ریجنل بلیڈ سنٹر کوئٹہ نے صحت مند خون کی مفت فراہمی کی خدمت جاری رکھی ہوئی ہے بلوچستان میں 2004 کے ایکٹ کے تحت صحت مند خون کی منتقلی کے لیے جرمن حکومت کے تعاون سے ریجنل بلیڈ سنٹر قا ئم کیا گیا بلوچستان کے 6 شہروں میں اس سنٹر کی شاخیں قائم کرنے کے کام کا آغاز ہوچکا ہے ریجنل بلیڈ سنٹر میں صحت مند صاف خون کی فراہمی کے لیے عالمی معیار کی جدید مشنری نصب کی گی ہے ہمارے ہاں صرف صحت مند انسانوں سے ہی خون کا عطیہ لیا جاتا ہے اس خون کومختلف ٹیسٹوں کے مراحل سے گزارنے کے بعد محفوظ کیا جاتا ہے۔روزانہ 100 بلیڈ بیگز میں سے 300 مریضوں کے لیے صاف صحت مند خون تیار کیا جاتا ہے یہ خون سرکاری ہسپتالوں میں زیر علاج مریضوں ٹراما سنٹر اور رجسٹرڈ تھیلسمیا مریضوں کو مفت فراہم کیا جاتا ہے۔عطیہ کیے گے ہر بلیڈ کے پانچ ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن میں ہپاٹیٹس B ہپاٹیٹس C۔ایچ ای وی ایڈز۔ ملیریا۔بلیڈ گروپ شامل ہیں۔ 8 مئی2017 سے RBC چوبیس گھنٹے کام کر رہا ہے۔روزانہ 300 لوگوں کو ٹیسٹ شدہ خون فراہم کیا جارہا ہے۔ بی ایم سی اور سول ہسپتال تھلسیمیا کیر سنٹرز میں دنیا کے جدید طرز علاج کی سہولیات اور بلیڈ مفت فراہم کیا جارہا ہے میں خود دونوں سنٹروں کو وزٹ کرتا ہوں ہمارے پاس تھلسیمیا کے علاج کی ادویات کی کمی ہے : انہوں نے بتایا کہ بلوچستان بلیڈ ٹرانسفر اتھارٹی نے کوئٹہ کے 6 بلیڈ بینکوں کو لایسنس جاری کیا ہے 16 نے لاسنس کے لیے اپلای کیا ہوا ہے متعلقہ معیار پر اترنے والے بینکوںکو لایسنس جاری کر دیے جاہیں گے۔کو ئٹہ میں اس وقت 73 غیر قانونی بلیڈ بینک کام کر رہے ہیںپاکستان میں تھیلی سیمیا کی شرح پانچ فیصد ہے یعنی ہر 100میں سے پانچ لوگ اس بیماری کا شکار ہیں جبکہ
بلوچستان میں یہ شرح 8فیصد ہے ، بروقت ٹیسٹ کرانے سے بہت سے خطرات ٹل جاتے ہیں ، ڈاکٹرصائمہ ارم
ڈاکٹر صائمہ ارم سربراہ شعبہ ہماٹالوجی سنڈمن ہسپتال کوئٹہ نے بتایا کہ پاکستان میں تھیلسمیہ کی شرح 5فیصد ہے یعنی ہر 100میں سے 5لوگ یا تو تھیلسمیہ ماہنر ہیں یا تھیلسیمہ کے کیریئر ہوتے ہیں بلوچستان میں یہ شرح 8فیصد ہے۔یہ وی لوگ ہیں جو اپنی زندگی نارمل گزارتے ہیں شادو نادر ہی ان کو کبھی خون کی ضرورت پڑھتی ہے وہ بھی کسی بیماری کے وقت خون کے ٹیسٹ کے وقت انہیں معلوم ہوتا ہے۔خطر ناک صورتحال تب پیش اتی ہے جب تھیلسمیہ ماہنر جوڑے کی آپس میں شادی ہوجاے اس کے بعد عورت حاملہ ہوجاے تو ہر زچگی میں 25فیصد چانس ہوتا ہے کہ تھیلسمیہ میجر کے ساتھ بچہ پیدا ہوگا۔50فیصد کیسز میں بچہ تھیلسمیہ مانر : یا تھیلسمیہ کیریئر کے ساتھ پیدا ہوسکتا ہے اور 25فیصد نارمل بچہ پیدا ہوتا ہے۔اب یہ ایسا نہیں ہے کہ ایک بار بچہ تھیلسمیہ کا مرض لے کر پیدا ہوا تو اگلی بار پیدا ہونے والا بچہ نارمل ہوگا ہر بچے کی پیدایش پر انہی خطرات کا چانس ہوتا ہے۔ہمارے معاشرے کی ثقافتی اقدار میں خاندان کے اندر ہی شادیاں ہوتی ہیں میں خاندان کی شادی یا کزن میریج کے خلاف نہیں ہوں لیکن اس بیماری کے تیزی سے پروان چڑنے کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ کزن میرج بھی ہے ملیریا کے مرض سے قدرتی طور پر مقابلہ کرنے کے لیے جسم میں انے والی تبدیلوں کے بعد قدرتی طور پر تھیلسمیہ ماہنر اور تھیلسمیہ کیریئر نسل در نسل اگے برھنے لگا۔جن علاقوں میں ملریا کا مرض تھا یا ہے ان علاقوں میں تھیلسمیہ کا مرض بھی عام ہوچکا ہے۔اس کے پروان چڑہنے کی بڑی وجہ لوگوں کا اس بیماری سے اگاہ نہ ہونا ہے خون کا ٹیسٹ کرانے کا رواج ہی نہیں ہے اس مرض کے فروخ کو روکنے کے لیے مرض سے متعلق اگاہی کے ساتھ صوبہ بھر میں ہر عمر اور خاص طور پر شادی سے قبل جوڑے کی سکرینگ کروانے کی اشد ضرورت ہے۔بلوچستان کی تمام ابادی کے خون کا ٹیسٹ cbc کرویا جاے۔اس ٹیسٹ میں خون کے اندر سرخ خلیوں کی مقدار اور سایز اور۔ہیموگلونین کتنی ہے کا جائزہ لیا جاتا ہے۔اس ٹیسٹ کے بعد تھیلسمیہ ماہنر یا کیریئر والے لوگوں کے مزید ٹیسٹ کرکے اس مرض کو اگے بڑھنے سے روکنے میں مدد مل سکتی ہے ھیلسمیہ کے مریضوں کے خاندان کے تمام لوگوں کا ٹیسٹ ہونا انتہای ضروری ہے۔ان ٹیسٹون کی مدد سے تھیلسمیہ ماہنر کے عورت مرد کی اپس میں شادی نہ ہونے دی جاے ھیلسمیہ ماینر اورتھیلسمیہ کیریئر والے جوڑوں کی اپس میں شادی کو سختی سے روکنے کی صرورت ہے انتہای افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے معاشرے میں شادی سے پہلے کسی قسم کے ٹیسٹ کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے فوری طوری پر تھیلسمیہ کے مریضوں کے جاندانوں کے مردوں کا شادی سے پہلے جون کا ٹیسٹ لازمی کرایا جاے تاکہ ایندہ انے والی نسل اس مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکے۔
میں روزانہ100خواتین کا معائنہ کرتی ہوں اور ان میں40فیصدسے زائد کو آئرن کی کمی ہوتی ہے ،پاکستان
میں70فیصد خواتین آئرن کی کمی کا شکار ہیں اور یہ دوران حمل سب سے بڑا مسئلہ ہے ، ڈاکٹر عائشہ صدیقہ
کالج اف فیزیشن اینڈ سرجن کی نائب صدر پروفیسرڈاکٹر عائشہ صدیقہ سربراہ شعبہ گائنی یونٹ 2 سول ہسپتال کوئٹہ نے بتایا کہ ’روزانہ 100 سے
زائدخواتین کا معائنہ کرتی ہوں اور یقین کریں ان میں سے چالیس سے زیادہ آئرن کی کمی کے ساتھ آتی ہیں‘بلا تاخیر میں نے ان سے وہی سوال کیا جس کا جواب میری تحقیق کا موضوع بننے والا تھا وہ یہ کہ پاکستان میں حمل کے حوالے سے خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ڈاکٹر عائشہ نے کسی توقف کے بغیر کہا ’آئرن کی کمی، اینیمیا۔‘پاکستان میں ستر فیصد خواتین اینیمیا کا شکار ہوتی ہیں اور ا ±ن میں پڑھی لکھی کھاتے پیتے گھرانوں کی خواتین بھی شامل ہیں،تو یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ آخر بلوچستان کے پسماندہ شہر پشین سے لے کر پنجاب کے مرکزی شہر لاہور تک اینیمیا ہی کیوں خواتین کا سب سے عام مسئلہ ہے؟ڈاکٹر عارف کا کہنا ہے کہ ایک تو پاکستان میں اینیمیا ویسے ہی عام ہے، دوسری وجہ اس خطے کی عمومی خوراک ہے جس میں مغربی معاشرے کے برعکس آئرن سے بھرپور خوراک کے علاوہ پروٹین بھی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہے،دہی علاقوں کی خواتین کو سمجھانا مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کمی سے کتنی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور گولیاں ناکافی ہوں تو انھیں آئرن کے انجیکشن لینا ہوں گے۔’خواتین انجیکشنز سے گھبراتی ہیں اور ا ±ن کے مردوں کو لگتا ہے کہ میں نے مہنگا علاج بتا دیا ہے،‘بہت عام ہونے کے باعث حمل کے ابتدائی مراحل پر ہی اینیمیا کا ٹیسٹ کروا لیا جاتا ہے اور پھر ولادت کے قریب 28ویں ہفتے میں ٹیسٹ دوبارہ کروایا جاتا ہے کیونکہ حمل کی تیسری سہ ماہی میں ہیمو گلوبن کی مقدار پہلے سے مزید کم ہو نے کا خدشہ بڑھتا جاتا ہے۔اینیمیا حمل میں خطرناک کیوں ہے؟حمل میں آئرن کی کمی کے باعث اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ حمل کا عرصہ مکمل ہونے سے قبل بچہ پیدا ہو جائے۔’پری ٹرم‘ یا حمل کی مدت مکمل ہونے سے پہلے پیدائش پاکستان جیسے خطوں میں نومولود بچوں کی اموات کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔حمل میں آئرن کی کمی کے باعث اس بات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے کہ حمل کا عرصہ مکمل ہونے سے قبل بچہ پیدا ہو جائے ،اس کے علاوہ یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ آئرن کی کمی یا غیر صحتمند وزن کے ساتھ پیدا ہو، ولادت کے بعد ماں کا دودھ کم بنے یا وہ پیدائش کے عمل کے بعد پوسٹ پارٹم ڈپریشن کا شکار ہو جائے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر ماں کا ہیمو گلوبن کم ہے تو بچے کی پیدائش کے دوران اگر ان کا تھوڑی مقدار میں بھی خون ضائع ہو جائے تو اس سے ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں نا قص اور غیر معیاری غذا کم خوراکی اور دیگر وجوہات کے باعث پیٹ میں کیڑوں کی وجہ سے بھی عور توں میں خون کی کمی واقع ہوتی ہے۔ملیریا اور جگر کی بیماری سے بھی خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے خون کی کمی کے باعث ہی ہمارے ہاں زچگی کے دوران عورتوں کی شرح اموات ملک بھر سے سب زیادہ ہے جس میں کمی کی بجاے آضافہ ہورہا ہے
خون کی کمی کو پورا کرنا عورتوں کی زندگی کو بچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔گولیوں اور ٹیکوں کے کورس مکمل کرنے اور خون پیدا کرنے والے پھل اور سبزیاں استعمال کرنے سے جون کی کمی دور کی جاسکتی ہے۔خون لگوانے کے بہے سے نقصانات ہوتے ہیں ہپاٹیٹس B سمیت دیگر بیماریوں کے جراثیم لگنے کا خدشہ ہوتا ہے ایک تو بلوچستان کی عورتوں میں کمی خوراکی کی وجہ سے عورتوں کی اکثریت اینمیا کا شکار ہوتی ہے۔ایسی صورتحال میں بچوں کے درمیان مناسب وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت سے عورتیں دوران زچگی موت کے منہ میں چلی جاتی ہے جس کا الزام لواقین ڈاکٹرز پر عائد کردیتے ہیں۔
شہید بے نظیر بھٹو بلڈ بینک ویلفیئر سوسائٹی2011ءسے عوام میںشعوروآگہی پھیلارہا ہے ،
فاطمید فاﺅنڈیشن کے تعاون سے درجن بھر بلڈ ڈونیشن کیمپ اب تک لگائے گئے ، حسین بخش سولنگی
شہید بے نظیر بھٹو بلڈ بینک ویلفیر سوسائٹی ر کے صدر حسین بخش سولنگی نے خون کے عطیات کی اہمیت اور شعور کے فروغ کے لیے تنظیم کی عملی جدوجہد بارے بتاتے ہوے کہا کہ محترمہ بے نظیر شہید کی ملک کے عوام کی زندگی میں اسانیاں لانے کی جدوجہد سے متاثر ہوکر میں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تنظیم کا قیام جنوری 2011 میں عمل میں لایا،تب سے ہم نے تھیلسمیہ کے مریضوں تک صحت مند خون کی فراہمی کی عملی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ہم نے فاطیمید فاو ¿نڈیشن اور کیڈنی سنٹر کے تعاون سے کئی درجن بلیڈ کیمپ لگاے ہیں جن سے جمع ہونے والا خون لاتعداد بچوں کی زندگی بڑھانے کے کام ایا صوبائی دارالحکومت سمیت شہید بے نظیر کی برسی کے موقع پر گڑی خدا بخش میں بھی بلیڈ کیمپ اور فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمارے رضاکار ساتھی تھیلسمیہ کے مرض کی وجوہات کے بارے میں عوامی اگاہی مہم بھی جاری رکھے ہوے ہیں۔ہر سال کی طرح امسال بھی 14جون کو تظیم کی جدوجہد میں تعاون کرنے والی شخصیات کو اوارڈز سے نوازا گیا ہے
`بچوں اور ماﺅں کا غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں جانا المیہ ہے ،موجودہ حکومت نے صوبے کے سات
اضلاع میں ایمرجنسی بنیادوں پر ماں اور بچے کے لئے غذا اور غذائیت کا پروگرام شروع کیا ،ڈاکٹر امین مندوخیل
نیوٹریشن پروگرام کے سابق کوآرڈینیٹر ڈاکٹر امین مندوخیل نے بتایا کہ محکمہ صحت نے غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں جبکہ موجودہ صوبائی حکومت نے 22 اضلاع میں ایمرجنسی کے طور پر ماں اور بچے کے لیے غذا اور غذائیت کا پروگرام7 اضلاع میں شروع کیا ہے جن میں جھل مگسی۔کچھی،پشین،دکی،واشک،ڈیرہ بگٹی،گوادر شامل ہیں۔صحت مند زندگی بسر کرنا بنیادی انسانی حق میں سے ایک ہے۔ بہت سارے وسائل کی حامل دنیا میں غذائیت کی وجہ سے بچے اور ماو ¿ں کا موت کے منہ میں چلے جانا ایک المیہ ہے ۔آج جب اس خطرے سے نمٹنے کے لئے ہمارے پاس علم ہے اور اسباب بھی ہیں اور ہم اپنی خواتین اور بچوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہونے کو یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش بھی کر رہے ہیں اس سلسلے میں صوبہ میں غذائیت میں کمی کو دور کرنے کے لیے حکومت بلوچستان کی مالی مدد کے ساتھ مختلف امور میں تعاون قابل ستائش ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر غذائیت کی کمی کے گولز کو حاصل کرنے کے لیے نمایاں کاوشوں کے لئے ڈونرز اور ترقیاتی شراکت داروں (ورلڈ بینک ، یونیسف ، ڈبلیو ایچ او اور ڈبلیو ایف پی) کا ممنون اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ مالی اور تکنیکی مدد تمام وسائل ، صلاحیتوں اور شواہد پر مبنی حکومت ، بین الاقوامی برادری ، سول سوسائٹی اور دیگر کے لئے وقت آگیا ہے کہ ہم اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں مجھے قوی امید ہے کہ عالمی ملکی اور صوبائی سطح کے اداروں کی مشترکہ کوششوں کے نتائج جلد ہمارے سامنے ہونگے ۔
ماہر امراض نسواں ڈاکٹرعائشہ نے بتایا کہ انیمیا کا مرض ہیموگلوبن یا خون میں سرخ ذرات کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ہیمو گلوبن خون کے ذرات میں آئرن والی پروٹین سے بھرا مادہ ہوتا ہے جو کہ آکسیجن کو جسم کے خلیوں تک پہچانے میں مدد دیتا ہے جب کسی انسان کے خون میں ہیموگلوبن کم ھو جاتے ھیں تو اسے انیمیا ہو جاتا ہے اس کا مطلب ہے کہ جسم میں آکسیجن کی مقدار کم ہو گئی ہے۔ اس سے رنگ پیلا پڑ جاتا ہے اور بہت زیادہ کمزوری اور تکان محسوس ہوتی ہے۔انیمیا چھوٹے یا بڑے عرصے کے لئے بھی ہو سکتا ہو۔ معمولی بیماری میں غذا کے ردوبدل سے قابو پایا جا سکتا ہو۔ زیادہ بیماری کی صورت میں ڈاکٹری علاج کی ضرورت ہوتی ہے،علامات انیمیا کی شدت پر منحصرہے کہ کتنی تیزی سے اس میں کمی واقئع ھوتی ہے اور اس کی وجوع کیا ہیں۔ یہ اس بات پر بھی منحصر ہے کہ بچے کا جسم کتنے کم ہموگلوبن کو برداشت کر سکتا ہے۔ علامات ذیل پر مشتعمل ہیں،جلد کا پیلا ہونا: کیونکہ ہیموگلوبن سے ہی خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے ،قوت کی کمی: آکسیجن کی کمی کی وجہ سے طاقت کم ہو جاتی ہے،ورزش یا کھیل کے بعد سانس لینے میں مسلہ پیدا ہو جاتا ہے کیو نکہ آکسیجن کی کمی واقع ہو جاتی ہے،انیمیا کی بہت سی اقسام ہیں جنہیں وجوہات کی بنیاد پر پہچانا جاتا ہے،غذائی انیمیاآئرن کی کمی سے ھونے والا انیمیا پہت عام ھے۔ آئرن ھی ھیموگلوبن بناتا ھے۔ایسے نومولود جو چھاتی کا دودھ، فامولہ دودھ یا پھر گائے کا بغیر ملاوٹ کا دودھ پیتے ھیں ان میں 6 مہینے کے بعد فولاد کی کمی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ فارمولہ میں آئرن کا ھونا ضروری ھے اگر بچہ ٹھوس غذا کھانا شروع نہ کرے۔ایسی مائیں جو کہ پورے وقت پر بچے کی پیدائش کرتی ہیں تو ان بچوں میں 6 مہینے تک آئرن کا کافی ذخیرہ ہوتا ہے جب تک کہ بچے ٹھوس غذا لینا شروع نہ کر دیں۔مًاں کے دودھ میں کافی آئرن ہوتا ہے۔ 6 مہینے سے دو سال کے عرصہ تک ٹھوس غذا کے ساتھ ماں کا دودھ بھی تجویز کیا جاتا ھ ہے،وٹامن کی کمی کا انیمیا: یہ فولک ایسڈ، وٹامن بی 12 یا وٹامن ای کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ جسم کو ہیموگلوبن بنانے کے لئے ان غٍذائی اجزاءکی ضرورت ہوتی ہے،کسی بیماری کی وجھ سے انیمیا کا ہونابیمار خلیوں کا انیمیا : یہ مورثی ہوتا ہے اور یہ آر بی سیز کی شکل بگاڑ دیتا ہے، یہ خلئے جسم کی طرف سفر نہیں کرتے اور نہ ہی نارمل آر بی سی بناتے ہیں۔ جسکی وجہ سے آکسیجن کی رسد جسم میں نہیں جاتی،آگر انیمیا کا علاج نہ کرایا جائے توبچے کی نشونما پر برا اثر پڑتا ہے ۔ انیمیا دماغی ترقی میں بھی رکاوٹ بن سکتا ہے پڑھنے کی صلاحیت، اور سکول کی خراب کارکردگی کا بھی باعث بنتی ہے، ڈاکٹر سادہ خون کا نمونہ لے گی جس سے بچے کے خون میں ہیموگلوبن کی مقدار کا پتہ چلے گا۔ آر بی سی کا نمبر، سائز اور شکل سے انیمیا کی قسم کا پتہ چلے گا۔ ہیموگلوبن خون کے کچھ قطروں کو لیکر بھی ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔ پورے خون میں جتنے آر بی سی ہیں ان کو بھی ماپا جاتا ہے۔ اس ٹیسٹ کو ہیموٹکرٹ کہتے ھی ہیں بچے کا ڈاکٹر جسمانی معائنہ بھی کرے گا اور آپ سے بچے کی قوت، عمومی صحت اود خاندانی ہسٹری کے متعلق سوالات کرے گا علاج اس بات پر منحصر ھے کہ انیمیا کی وجوھات کیا تھی اور اس کی شدت کتنی ہے۔
سماجی شخصیت شازیہ احمد لانگونے کہ بلوچستان کے سماج میں آج بھی عورت کی زندگی غلاموں جیسی ہے باہمت خواتین جن کو ان کے والد یا بھائیوں نے عملی زندگی میں جدوجہد کرنے کے لیے ساتھ دی ان کی بدولت آج ہماری بچیاں اعلی حاصل کرکے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہیں،ہمارے سماج میں اب بھی پہلے کھانا مردوں کو دیا جاتا ہے ان کا بچا ہو اکھانا عورتوں کو ملتا ہے ایسی صورت میں خواتین میں خورات کی کمی واقع ہونا لازمی امر ہے ،عورتوں کو علاج کے لیے اس قت تک نہیں لے جایا جاتا جب تک اس کی حالت بگڑ نہ جائے ، خصوصا حاملہ خواتین کو ماہانہ چیک اپ کے لیے لے جانے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ،ظاہر ہے جب بچپن میں ہی کون کی کمی کا شکار خاتون کی شادی ہوتی ہے تو اس کی صحت کو دیکھے بغیر اسے بچہ پیدا کرنے کی مشکل سے گزارا جاتا ہے حاملہ خواتین کوو بھی مناسب خوراک نہیں دی جاتی جس اس اس میں خون کی کمی مذید بڑھ جاتی ہے یہی کمی دوران زچگی بہت سی عورتوں کو موت کی واد ی میں پہنچا دیتی ہے ، عورت کو بطور انسان تسلیم کیے بغیر ہر سال بچے کی پیدائش کا عمل اس کی زندگی کے دن کم کردیتا ہے ، اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے عورتوں کو علاج معلجے کی بہتر سہولیات اور اختیار دلانے کی جدوجہد تیز کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہر امرض تھلیلیسیمیا ڈاکٹر ثروت نے کہا کہ (Thalassaemia) کا ہومیو پیتھک علاج بھی ممکن ہے ایلو پیتھی میں 3طرح کے علاج ہیں. پہلا بلڈ چینج کرنا. لیکن اس کے باوجود عام طور پر مریض 20 تا 30 سال تک جا سکتا ہے. اور یہ بہت عام ہے. دوسرا بون میرو ٹرانسپلانٹ. بہت مہنگا علاج ہے ہر کوئی نہیں کرا سکتا اور سب کو ایک جیسا فائدہ نہیں دیتا. ہاں کچھ مریض ٹھیک ہو جاتے ہیں اور پیچدگیاں بھی ہیں. تیسرا جو علاج مستقبل قریب میں متوقع ہے وہ کہ جین کی تبدیلی. لیکن اس پر ریسرچ جاری ہے. اب ہم ہومیوپیتھی کی طرف آتے ہیں. ہومیو پیتھی میں اس کا علاج کیسے ممکن ہے سمجھتے ہیں. ہم جانتے ہیں کہ ہومیوپیتھی میں سب سے اہم ترین اصول یہ ہے کہ جو دوا کروڈ فارم میں ہمارے جسم کو بیمار کرتی ہے. وہی دوا پوٹینسی میں اس بیماری کو ٹھیک کرتی ہے..مثلاً کسی کو اگر Ars alb یعنی سنکھیا کھلا دیا جا تو جو علامات یا بیماری اس سے پیدا ہوگی. وہ Ars alb کو 200 یا 1M پوٹینسی میں لینے سے تیزی سے ختم ہو جائے گی. یہ ایک اٹل اور سائنٹیفک اصول ہے. اور ہو میو پیتھی کی عمارت اسی اصول پر قائم ہے. ہم
تھلیسیمیا کا علاج کرنے میں 100 فیصد کامیاب ہو جائیں گے. اگر یہ جان لیں کہ کون کون سی چیزیں یا ادویات DNA یا جینز کو خراب کر سکتی ہیں تو ہومیوپیتھیک اصول کیمطابق ان ہی کی پو ٹینسی اس خرابی کو دور کر سکتی ہے. مثلاً ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ X-Ray کا استعمال DNA اور جینز میں خرابی پیدا کرتا ہے تو یہی X-Ray, پوٹینسی میں DNA اور جین کی خرابی کو دور بھی کر دے گا. اور چونکہ تھلیسیمیا DNA اور جین کی خرابی کے باعث ہوتا ہے. تو X-Ray پوٹینسی 30,200وغیرہ میں تھلیسیمیا درست کر سکتی ہے اس طرح کی اور بھی ادویات ہیں..ڈاکٹر صاحبان کو تحقیق کی دعوت ہے.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں